*علی طاہر رضوی*
لکھنؤ۔ عام انتخابات سے پہلے کانگریس اپنے ووٹ بینک میں اضافے کے ساتھ ساتھ اترپردیش میں اپنا دائرہ وسیع کرنے میں بھی مصروف عمل ہے۔ کانگریس کے نشانے پر سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی کے وہ رہنما بھی ہیں جو اپنے حلقہ میں کافی اثر رسوخ رکھتے ہیں اور ان کا ایک ووٹ بینک ہے۔
کانگریس میں گذشتہ کچھ دنوں سے سیاسی رہنماؤں کی شمولیت پر ایک نظر ڈالیں تو یہ بات پوری طرح سے صاف ہوجاتی ہے۔ کانگریس رہنما بھی پارٹی سے کنارہ کش ہو کر ایس پی اور بی ایس پی میں شامل ہوئے ہیںاور اس کی وجہ سے کانگریس اپنے گم کردہ ووٹ بینک کو اپنی جانب راغب کرنے کیلئے اس بت سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ کانگریس ہی ان کی سچی ہمدرد ہے اور ملک کی سطح پر سیاسی طور پر بی جے پی کو شکست دینے کی طاقت رکھتی ہے۔عام انتخابات کی تیاریوں میں مصروف اپنی تنظیم کو چست درست رکھنے پر خاص توجہ دے رہی ہے اور ساتھ یہ اپنا کنبہ بڑھانے میں مصروف ہے، وہ اپنے پرانے روایتی ووٹ بینک کو دوبارہ حاصل کرنے کیلئےجان توڑ کوشش کر رہی ہے اسی کے تحت کانگریس کے نشانے پر ایس پی اور بی ایس پی ہے جہاں گذشتہ چار دہائیوں میں کانگریس کا ایک بڑا ووٹ کھسک گیا ہے۔ کانگریس کافی حد تک اپنی کوشش میں کامیاب نظر آرہی ہے حالیہ دنوں میں کانگریس میں شامل رہناؤں پر اگر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے…بقیہ صفحہ ۲پر
6نومبر کو ایس پی کے سابق رکن پارلیمان روی پرکاش ورما کی بیٹی پوروی ورما و بی ایس پی رہنما نواب فیضان علی خان اپنے حامیوں کے ساتھ کانگریس میں شامل ہوئے۔ اسی طرح پانچ نومبر کو بی ایس پی حکومت میں وزیر رہے راج بہادر سنگھ اور سابق آئی پی ایس اُمیش سنگھ نے کانگریس کا ہاتھ تھاما تھا۔ 18؍اکتوبر کو ایس پی کے سابق ایم ایک اے گیادین انوراگی اور بی جے پی کے سابق رکن اسمبلی پشوپتی ناتھ رائے ، 12؍اکتوبر کو کئی اضلاع کے عوامی رہنما، 10؍اکتوبر کو ایس پی کے سابق ایم ایل اے محمد فیروز اور دیگر مسلم ، 9؍اکتوبر کو سابق کانگریسی رہنما کوکب حمید کے بیٹے اور آر ایل ڈی رہنما نواب احمد حمید اور سات اکتوبر کو مغربی یو پی کے قدآور رہنما عمران مسعود نے کانگریس پارٹی کا ہاتھ تھاما۔