مصر سے تعلق رکھنے والی کوچ منال رستم نے نائیکی کے سرپوش کو تجرباتی طور پر سب سے پہلے پہنا ہے اور اس کو بہتر قرار دیا ہے۔
کھیلوں کا مختلف سامان ،کھلاڑیوں کے ملبوسات اور جوتے تیار کرنے والی امریکا کی کثیر قومی کارپویشن نائیکی نے بہار 2018ء سے محجب مسلم ایتھلیٹس کے لیے تیار کردہ خصوصی سرپوش کی فروخت کا اعلان کیا ہے۔
اس سرپوش کو ’’نائیکی پرو حجاب‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ نائیکی نے انٹرنیٹ پر اس حجاب کے حق میں ایک وڈیو مہم بھی شروع کی ہے۔اس میں مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والی خواتین ایتھلیٹس نظر آرہی ہیں۔اس کا عنوان ’’ وہ آپ کے بارے میں کیا کہیں گے؟‘‘ ہے۔
نائیکی نے اس ویڈیو میں بتایا ہے کہ ’’ابھی پروحجاب کے مارکیٹ میں آنے میں ایک سال باقی ہے لیکن مسلم ایتھلیٹس کے لیے اس سرپوش کی ضرورت کا احساس سنہ 2012ء میں پہلی مرتبہ شدت سے ہوا تھا جب ایک محجب ایتھلیٹ نے لندن میں منعقدہ اولمپکس میں دوڑ میں حصہ لیا تھا‘‘۔
نائیکی نے سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی سارہ عطار کا حوالہ دیا ہے۔انھوں نے لندن اولمپکس میں 800 میٹر کی دوڑ میں حصہ لیا تھا لیکن ان سے قبل بحرین سے تعلق رکھنے والی محجب ایتھلیٹ رقیہ القصریٰ حجاب پہن کر 2004ء میں ایتھنز میں منعقدہ اولمپکس میں حصہ لے چکی تھیں۔اس کے چار سال بعد بیجنگ اولمپکس میں بھی انھوں نے حجاب پہن کر حصہ لیا تھا۔
گلوبل نائیکی کی خاتون ترجمان میگان سالفیلڈ نے العربیہ کو بتایا ہے کہ ’’نائیکی پروحجاب خواتین ایتھلیٹس سے گفتگو کے بعد ڈیزائن کیا گیا ہے اور انھوں نے جیسے ہمیں بتایا ہے ،اس کے مطابق اس کو تیار کیا جارہا ہے تاکہ ان کی کارکردگی بہتر ہوسکے۔ ہمیں امید ہے کہ اس سے دنیا بھر سے تعلق رکھنے والی خواتین ایتھلیٹس کو فائدہ پہنچے گا‘‘۔
انھوں نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی اولمپیئن اور ویٹ لفٹنگ ایتھلیٹ آمنہ الحداد امریکی ریاست اوریگن میں نائیکی کی سپورٹس ریسرچ لیبارٹری میں آئی تھیں۔ان کے ساتھ گفتگو سے خواتین ایتھلیٹس کے لیے حجاب تیار کرنے کا تصور سامنے آیا تھا اور پھر اس کو تیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
آمنہ الحداد نے یہ شکایت کی تھی کہ ان کے پاس صرف ایک ہی حجاب (سرپوش) ہے اور انھیں مقابلوں کے دوران میں اس کو ہر روز رات کو دھونا پڑتا ہے۔سالفیلڈ نے بتایا کہ ’’اس کے بعد ہم نے آمنہ اور دوسری ایتھلیٹس سے گفتگو کی اور ان سے یہ پوچھا وہ کس قسم کا حجاب چاہتی ہیں۔ان سے بات چیت کا ماحصل یہ تھا کہ وہ ایسا سرپوش چاہتی ہیں جو وزن میں ہلکا ہو ،اس سے سانس لینے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ سر سے ہلے جلے یا سرکے بھی نہیں کہ بار بار اس کو ہاتھ سے درست کرنے کی نوبت پیش آئے‘‘۔
سعودی عرب کی شہزادی ریما بنت بندر نے نائیکی کے مسلم خواتین ایتھلیٹس کے لیے نیا مخصوص حجاب تیار کرنے کے منصوبے کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ ’’ یہ کھیل میں تبدیلی کا موجب بنے گا،اس سے خطے کے علاوہ دنیا بھر کی لڑکیوں کے لیے نئے دروازے کھلیں گے‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں خواتین کے کھیلوں میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں۔
واضح رہے کہ کھیلوں کے عالمی مقابلوں میں محجب خواتین کو شرکت کی اجازت ایک متنازع مسئلہ رہی ہے۔ عالمی فٹ بال فیڈریشن ( فیفا) ماضی میں حجاب پہننے والی خواتین کو فٹ بال کے بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتی تھی لیکن اس نے 2014 میں یہ پابندی ختم کردی تھی جبکہ بین الاقوامی باسکٹ بال فیڈریشن نے محجب ایتھلیٹس کے کھیلنے پر ابھی تک پابندی برقرار رکھی ہوئی ہے۔