سری لنکا کے حکام نے گزشتہ روز ہونے والے پُرتشدد احتجاج اور فسادات کے بعد بدامنی پھیلانے والے کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری کردیے۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے ’ اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کے ہزاروں اہلکاروں کی مدد سے کرفیو نافذ العمل ہے،
Soldiers check documents of motorists passing through a check point in Colombo on May 10, 2022. – Five people were killed and more than 225 wounded in a wave of violence in Sri Lanka where the prime minister resigned after weeks of protests over the worsening economic crisis. (Photo by ISHARA S. KODIKARA / AFP)
انہیں حکم جاری کیا گیا ہے کہ ’اگرکوئی عوامی دولت کو لوٹے یا انہیں جانی نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو اسے دیکھتے ہی گولی ماردی جائے‘۔
گزشتہ روز کولمبو حکومت کے حامیوں کی جانب سے چھڑیوں اور ڈنڈوں کی مدد سے حکومت مخالف مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، مظاہرین ہفتوں سے جاری اقتصادی بحران پر احتجاج کر رہے تھے، انہوں نے صدر گوٹابایا تاجا پاکسے سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔
حکومت کے حامیوں کے حملے کے بعد مظاہرین کا ہجوم رات گئے تک ملک بھر میں جوابی کارروائی کرتا رہا، حکمران جماعت کے درجنوں سیاستدانوں کے گھر نذر آتش کردیے گئے جبکہ دارالحکومت میں واقع وزیر اعظم کے سرکاری دفتر پر دھاوا بولنے کی کوشش بھی کی گئی۔
پولیس کا کہنا تھا کہ مختلف واقعات میں مجموعی طور پر 8 لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔
کرفیو کے باوجود بھی احتجاجی مظاہرے رات گئے تک جاری رہے، ہجوم نے حملہ کرتے ہوئےکولمبو کے سینئر پولیس افسران کو لے جانے والے گاڑی کو نذر آتش کردیا۔
افسران نے مظاہرین کو خبردار کرتے ہوئے گولیاں چلائیں اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل دیشبندو تیناکون کو ہسپتال منتقل کیا تاہم بعدازاں علاج کے بعد انہیں ڈسچارج کردیا گیا۔
دوسری جانب عینی شاہد کاکہنا ہے کہ سیکیورٹی کے حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں، سیکیورٹی فورسز کے گروپوں نے کولمبو ائیر پورٹ جانے والی مرکزی سڑک بند کرتی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکتے کہ راجا پاکسے کے وفادار ملک چھوڑ کر جانے کی کوشش تو نہیں کر رہے ہیں۔
علاوہ ازیں،مختلف واقعات میں ہلاکتوں کے علاوہ 225 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں، ایسا ہی منظر وزیر اعظم کے مستعفی ہونے پر دیکھا گیا تھا۔
وزیر اعظم عوامی غصے کےدوران ملک سے روانہ ہونے میں ناکام رہے جبکہ ان کے بھائی اب بھی صدر ہیں جن کے پاس وسیع اختیارات اور سیکیورٹی فورسز کی کمانڈ بھی موجود ہے۔
رات گئے مہندا پاکسے کی سرکاری رہائش گاہ پر ہزاروں مظاہرین کے حملے کے بعد انہیں فوجی آپریشن کے ذریعے ریسکیو کیا گیا تھا، اس دوران کمپاؤنڈ میں پیٹرول بم بھی پھیکے گئے تھے۔
راجا پاکسے کے خاندان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مہینوں سےبلیک آؤٹ اور اشیائے ضروریہ کی قلت کا سامنا ہے، یہ 1948 میں سری لنکا کی آزادی کے بعد خراب ترین اقتصادی بحران ہے۔
تشدد کے دوران احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کےلیے پولیس نے آنسو گیس اور واٹر کا استعمال کیا جبکہ ملک بھر میں کرفیو بھی نافذ کیا گیا۔
مشتعل ہجوم کی جانب سے راجا پاکسے کے حمایتی کم از کم 41 سیاستدانوں کے گھر نذر آتش کردیے گئے، مظاہرین نے ان کے آبائی گاؤں میں واقعے میوزیم کو بھی نقصان پہنچایا۔
اقوام متحدہ کے سربراہ برائےحقوق مچل بشلٹ کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے حامیوں کی طرف سے کیے جانے والے تشدد اور اس کے نتیجے میں حکمراں جماعت کے اراکین کے خلاف ’ہجوم کے تشدد‘ سے ’سخت پریشان‘ ہیں۔
ایک بیان میں میچل بشلٹ نے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت کو کہا کہ وہ ’معنی خیز مذاکرات کے لیے سوسائٹی کے لوگوں سے رابطہ کریں‘۔
مہندا راجا پاکسے کا کہنا تھا کہ انہوں نے متحدہ حکومت کی راہ ہموار کرنے کے لیے استعفیٰ دیا ہے لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ حکومت ان کے بھائی کی زیر قیادت حکومت کا حصہ بنے گی یا نہیں بنے گی۔
صدر کے پاس وزرا کے تقرر اور انہیں برطرف کرنے کے اختیارات موجود ہیں جبکہ وہ استغاثہ کی کارروائی سے بھی مستثنیٰ ہے۔
تمام سیاسی جماعتوں اور صدر کے درمیان آن لائن اجلاس کے انتظامات کیے جارہے ہیں۔
ویلسن سینٹر سے منسلک ایک تجزیہ کار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ جب تک صدر گوٹابایا راجا پاکسے قدم پیچھے نہیں ہٹا لیتے سڑکوں پر نکلنے والے عوام ہوں یا کلیدی سیاسی اسٹیک ہولڈر مطمئن نہیں ہوں گے‘۔