سری لنکا کے صدر نے گزشتہ روز 5 ہفتوں میں دوسری بار ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے حکومت کو غیر معمولی اقتصادی بحران کا ذمہ دار قرار دینے والے مشتعل مظاہرین کی ملک گیر ہڑتال کے دوران سیکیورٹی فورسز اختیارات بڑھادیے۔
Police use a water canon to disperse university students protesting to demand the resignation of Sri Lanka’s President Gotabaya Rajapaksa over the country’s crippling economic crisis, near the parliament building in Colombo on May 6, 2022. (Photo by ISHARA S. KODIKARA / AFP)
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق صدر گوٹابایا راجا پاکسے کے ترجمان نے کہا ہے کہ انہوں نے دکانیں بند ہونے اور پبلک ٹرانسپورٹ کو روکنے کے بعد ’عوامی نظم و نسق کو یقینی بنانے‘ کے لیے سخت قوانین نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
قبل ازیں، پولیس کی جانب سے راجا پاکسے سے استعفے کا مطالبہ کرنے والے طلبہ کے ہجوم کو منشتر کرنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا گیا تھا۔
ایمرجنسی سیکیورٹی فورسز کو اختیار دیتی ہے کہ ملزمان کو گرفتارکر کےعدالتی سرپرستی کے بغیر طویل عرصے کے لیے حراست میں رکھا جائے، اس دوران امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے پولیس کے علاوہ فوجی دستے تعینات کرنے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ قوانین کا اطلاق جمعے کی رات سے ہوگا۔
مشکلات سے گھرے گوٹابایا راجا پاکسے نے اس سے قبل یکم اپریل کو ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد ہزاروں مظاہرین کا ہجوم دارالحکومت میں واقعے ان کے گھر میں باہر جمع ہوگیا تھا، تاہم اس 14 اپریل کو ایمرجنسی ختم کردی گئی تھی۔
خیال رہے اس احتجاج کی وجہ 1948 میں آزادی کے بعد سری لنکا کی تاریخ کا سب سے بڑا اقتصادی بحران ہے۔
ایمرجنسی کے نئے اعلان کے بعد ہزاروں احتجاجی مظاہرین سمندر کے کنارے واقعے گوٹابایا پاکسے دفتر کے باہر سراپا احتجاج ہیں، جہاں وہ 9 اپریل سےاحتجاج کر رہے ہیں اور اسی طرح کے دیگرگروپوں نے دیگر سیاسی عہدیداران کے گھر پر بھی دھاوا بولنے کی کوشش کی ہے۔
دوسری جانب سے طلبہ کی جانب سے گزشتہ روز سخت سیکیورٹی حصار میں موجود قانون سازحملہ کرنے کی کوشش کی گئی، ان کا اور دیگر مظاہرین کا الزام ہے کہ گوٹابایا راجا پاکسے اور ان کا حکمران خاندان معاشی بدمزدگی کا سبب ہیں۔
مہینوں سے جاری بلیک آؤٹ اور غذا، ایندھن، اور ادوایات کی قلت نے جزیرے کو وسیع تر مشکلات میں دھکیل دیا ہے۔
ملک کی ٹریڈ یونین تحریک کی جانب سے منعقد کیے گئے احتجاج میں مزدوروں نے کام چھوڑ کر بڑی تعداد میں شرکت کی جبکہ ٹرین اور سرکاری بس سروس کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
صنعتوں کے ملازمین کی جانب سے اپنی فیکٹریوں کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور حکومت کے خلاف غصے کا اظہار کرتے ہوئے ملک بھر میں سیاح پرچم لہرائے گئے۔
گوٹابایا راجا پاکسے کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دفتر کے باہر ہونے والے احتجاج سمیت دیگر احتجاجی مظاہروں کے باوجود پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
خیال رہے ان مظاہروں نے انہیں گھر سے کام کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر اپنے بڑے بھائی جو وزیر اعظم ہیں ان پر پیچھے ہٹنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہوئے اتحادی حکومت کی تشکیل کی اجازت دے سکتے ہیں تاکہ ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے تجویز پیش کی جاسکے۔