گھر کی خوشیوں، ہلچلوں اور تیاریوں کو دیکھ کر 11 سالہ نوہی سوچ رہی تھی کہ کوئی تیوہار ہے۔ نوہی خوش تھی کیوں کہ اس کے ہاتھوں میں مہندی لگائی جا رہی تھی، اس کے لئے نئے کپڑے آئے تھے اور سب لوگ خوش نظر آ رہے تھے۔
شام کو جب نوہی کو معلوم ہوا کہ یہ سب اس کی شادی کے لئے ہے تو اس کے دماغ میں بہت سے سوال تھے۔ سوالوں کے جواب تو مل رہے تھے لیکن نوہی اور اس کے گھروالوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ شادی نہیں نوہی کی بربادی ہے۔
نوہی نے اپنی ماں سے پوچھا کہ شادی ہو جائے گی تو وہ اسکول کیسے جائے گی؟ اس کی ماں نے جواب دیا کہ اس کا ہونے والا شوہر بہت اچھا ہے وہ اسے اسکول جانے دیگا۔ دلہن بن کر تیار ہو جانے کے بعد نوہی روتے ہوئے اپنی والدہ کے گلے سے لگی اور اس نے کہا کہ وہ شادی نہیں کرے گی۔ تب ماں نے سمجھاتے ہوئے کہا اگر وہ شادی نہیں کرے گی تو سب اسے ’ بائرا‘ اور ’اگر‘ کہیں گے۔ معاشرہ میں جن لڑکیوں کی شادی جلدی نہیں ہوتی، انہیں بانجھ یا انچاہی مانا جاتا ہے۔ ایسی لڑکیوں کو بائرا کہہ کر طعنے دئے جاتے ہیں۔ عمیرا نے یہ بھی کہا کہ نوہی تو خوش قسمت ہے کیوں کہ عدم نے خود ا س کا ہاتھ مانگا ہے۔
عدم 38 سال کا آدمی ہے جو نوہی کا دولہا بننے والا ہے۔ دونوں کی شادی ہوئی اور عدم نوہی کے ساتھ زور زبردستی جنسی تعلقات قائم کرتا، اسے مارتا پیٹتا اور تمام جنسی اذیت پہنچاتا۔ عدم کے گھر میں ایک اور لڑکی تھی جس کی حالت نوہی کی طرح ہی تھی اس کا نام میزن تھا وہ عدم کی پہلی بیوی تھی اس کی شادی بھی نوہی کی طرح بہت جلدی ہو گئی تھی۔
روز بہ روز عدم کی جنسی زیادتیاں نوہی کے لئے بڑھتی گئیں۔ وہ نوہی کو تکلیف دیتا اور میزن اس کو مرہم لگاتی۔ عدم اس کے ساتھ زبردستی تعلقات قائم کرتا، نوہی چیختی، چلاتی لیکن اس کی سننے والا کوئی نہ ہوتا سوائے میزن کے ۔ کبھی اسے اپنے ماں کی یاد آتی تو کبھی اپنے اسکول کی۔ اپنے والدین سے نوہی نے بتایا کہ عدم اس کے ساتھ کیا کیا کرتا ہے لیکن ماں باپ نے اسے سمجھا دیا کہ اسے اب اپنے شوہر کے گھر ہی رہنا ہے۔
عدم کی اس معصوم پر زیادتیاں بڑھتی گئیں اور ایک دن میزن کی مدد سے وہ گھر سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئی ۔ نوہی اس چھوٹی سی عمر میں بہت کچھ برداشت کر چکی تھی۔ وہ بھاگ کر پولیس اسٹیشن گئی اور اپنے ساتھ ہوئی جنسی اور تمام زیادتیوں کے بارے میں بتایا۔ پولیس نے میڈیکل جانچ کرائی جس کے بعد یہ صاف ہوا کہ اس کے ساتھ کس قدر جنسی مظالم ہوئے ہیں۔
فی الحال پولیس نوہی کے شوہر اور اس کے والد سے پوچھ گچھ کررہی ہے۔ اور نوہی اسکول جانے کی عمر میں اپنے شوہر عدم سے طلاق مانگ رہی ہے ۔
ہمارے معاشرہ میں جہاں ہم اپنے آپ کو تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں۔ چاہے لڑکی ہو یا لڑکا 20 یا 25 سال کی عمر سے پہلے شادی کرنے کے بارے میں نہیں سوچتے۔ لیکن آج بھی ایسے ملک ہیں جہاں بچیوں کی شادی کم عمری میں ہی ہو جاتی ہے اور تمام عمر ان کے ساتھ جنسی زیادتیاں ہوتی ہیں۔ حال ہی میں افریقہ کےسوڈان میں ایک دل دہلانے والا واقعہ پیش آیا جہاں ایک 10 سالہ معصوم کی شادی 38 سال کے شادی شدہ آدمی سے کرا دی جاتی ہے۔