جاپان میں اکتوبر میں مسلسل چوتھے مہینے خودکشیوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا اور یہ گزشتہ 5 برسوں میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔سماجی ماہرین نے بڑی تعداد میں خودکشیوں کی وجہ کورونا وائرس کے باعث آنے والے اقتصادی اثرات کو قرار دیا، جس کا سب سے زیادہ شکار خواتین ہو رہی ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق پولیس کے ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر میں مجموعی طور پر 2 ہزار 153 افراد نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا جو ستمبر کے مقابلے میں 300 زیادہ ہیں اور مئی 2015 کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔
اکتوبر میں خودکشی کرنے والوں میں 851 خواتین شامل تھیں جو کہ 2019 میں اسی ماہ کے مقابلے میں 82.6 فیصد زیادہ ہے، جبکہ مردوں کی خودکشی کی تعداد میں 21.3 فیصد کا اضافہ ہوا۔
سماجی کارکنان نے کہا کہ گزشتہ سال جولائی تک جاپان میں خودکشی کے واقعات میں کمی آرہی تھی، لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے اقتصادی صورت حال پر پڑنے والے اثرات کے سبب خودکشی کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ اس سے خواتین زیادہ متاثر ہوئی ہیں کیونکہ ریٹیل یا خدمات کی صنعتوں میں غیر مستقل ملازمتیں کم ہوگئی ہیں جس کی وجہ سے بیشتر خواتین بے روزگار ہوگئیں۔
جاپان میں قدیم زمانے سے ہی خودکشی کو شرمندگی یا توہین سے بچنے کے ایک طریقہ کار کے طورپر اپنایا جاتا رہا ہے۔
کئی سالوں سے نفسیاتی مدد لینے کو بُرا سمجھا جاتا ہے اور جاپان میں خودکشی کی شرح ’جی 7‘ ممالک میں خوفناک حد تک زیادہ ہے۔
تاہم 2003 میں جب جاپان میں خودکشی کے 34 ہزار427 واقعات سامنے آئے تو ملکی پالیسی سازوں نے خودکشی کے تدارک کے حوالے سے ایک جامع پروگرام تیار کیا، جسے 2007 میں جاری کیا گیا۔
اس پروگرام کے تحت حکومت اور کارپوریٹ مشترکہ طور پر ایسے افراد اور گروپ کی نشاندہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کے خودکشی کے خدشات زیادہ ہیں۔
وہ ان کی پریشانیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنے کے علاوہ انہیں مشاورت بھی فراہم کرتے ہیں، لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود بھی گزشتہ برس 20 ہزار سے زائد افراد نے خودکشی کرلی تھی۔