لکھنئو۔ اترپردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ نے مسجد کی تعمیر کے لئے ایودھیا میں ملنے والی پانچ ایکڑ زمین لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ آج لکھنئو میں بورڈ کی میٹنگ کے بعد چئیرمین زفر فاروقی نے زمین لینے کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم نامے پر حکومت کی جانب سے ملنے والی پانچ ایکڑ زمین پر مسجد کے ساتھ ساتھ ایک انڈو اسلامک کلچرل سنٹر، چیریٹیبل اسپتال اور لائبریری کی تعمیر کو یقینی بنایاجائے گا۔
اختلافات کے ساتھ شروع ہوئی بورڈ ممبران کی میٹنگ میں بالآخر زمین لینے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ بورڈ کے دو ممبران عمران مسعود اور عبد الرزاق نے یہ کہتے ہوئے زمین نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا کہ شریعت میں مسجد کے بدلے کوئی بھی چیز قابل قبول نہیں ہے لیکن باقی چھ ممبران نے زفر فاروقی کی ہمنوائی کرتے ہوئے فیصلے پر مہر لگا دی۔ بورڈ کے چئیرمین نے صاف طور پر کہا کہ یہ فیصلہ اتفاق رائے سے ہوا ہے اور ہم نے سپریم کورٹ کے حکم کی پابندی کرتے ہوئے زمین لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس سلسلے میں یہ وضاحت بھی کی گئی کہ مجوزہ تعمیرات کے لئے ایک ٹرسٹ بنایا جائے گا جو تعمیرات کے کام کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر اہم امور کا بھی خیال رکھے گا۔ تعمیرات کے لئے نہ تو وقف بورڈ رقم دیگا نہ سرکار سے مطالبہ کیا جائے گا۔ رقم کی حصولیابی ایک بڑا مسئلہ ضرور ہے تاہم یہ ذمہ داری تشکیل دئے جانے والے ٹرسٹ کی رہے گی کہ وہ محض عوامی چندے پر منحصر رہتا ہے یا پھر کوئی دوسرا طریقہ کار بھی استعمال کرتا ہے۔
کہا جا رہا تھا کہ ایودھیا کے روناہی میں جہاں مسجد کے لئے زمین دی جارہی ہے وہ ایودھیا ضلع میں تو ہے ایودھیا شہر میں نہیں اور دی جانے والی جگہ بھی متنازعہ ہے۔ اس پر کئی مقدمات چل رہے ہیں اور اس زمین کے کئی دعویدار ہیں۔ لیکن زفر فاروقی نے ملنے والی جگہ اور اس کے مقام پر بھی اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جہاں جگہ مل رہی ہے وہ مسلم آبادی کا علاقہ ہے اور پہلے سے بھی وہاں مساجد موجود ہیں۔ لہٰذا اس جگہ پر تعمیر ہونے والی مسجد محفوظ بھی رہے گی اور کسی طرح کا کوئی تنازعہ بھی نہیں ہوگا۔ جس جگہ پر مقدمہ چلنے کی بات کی جا رہی ہے وہ وقف بورڈ کو ملنے والی پانچ ایکڑ زمین سے الگ ہے۔
بورڈ نے فیصلہ وہی کیا جس کے اماکانات تھے۔ ناراض ممبران کے مطابق زفر فاروقی حکومت کے دباؤ میں ہیں لہٰذا وہ شرعی اور غیر شرعی کچھ بھی کام کررہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وقف بورڈ کے علاوہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ،جمعیۃ علما ہند اور کئی دیگر اہم تنظیموں نے بابری مسجد کے بدلے کچھ بھی قبول کرنے سے پہلے ہی انکار کر دیا تھا۔