نئی دہلی، 14 اکتوبر (یو این آئی) سپریم کورٹ نے پیر کو اتر پردیش کی مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کی اراضی کی لیز منسوخ کرنے کے ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضی کو مسترد کر دیا۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والی بنچ نے اس معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کے 18 مارچ 2024 کے حکم میں مداخلت کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا، ’’ہمیں ہائی کورٹ کے حکم میں کوئی خامی نظر نہیں آتی‘‘۔
یہ معاملہ سماج وادی پارٹی کے سینئر لیڈر محمد اعظم خان کی قیادت والے ٹرسٹ کی طرف سے آپریٹڈ مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کی اراضی کی لیز کی منسوخی سے متعلق ہے۔
بنچ نے مسٹر خان کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل سے کہا، ’’ہم اس معاملے میں مداخلت نہیں کریں گے کیونکہ حقائق بہت سنگین ہیں۔ شہری ترقیات کے وزیر اور اس وقت کے اقلیتی امور کے وزیر کی حیثیت سے آپ نے خاندان کے زیر انتظام ایک ٹرسٹ کو زمین الاٹ کی تھی۔ یہ تو عہدہ کے غلط استعمال کا واضح معاملہ ہے، ایسا نہیں تو اور کیا ہے۔
اس پر مسٹر سبل نے کہا کہ یہ تمام حقائق ہیں جن سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا، لیکن زمین کی لیز الاٹ کرنے کا فیصلہ ذاتی طور پر نہیں لیا گیا، بلکہ کابینہ نے لیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ لیز منسوخ کرنے سے پہلے کوئی وجہ بتاؤ نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا۔
جب بنچ نے کہا کہ ہمیں ہائی کورٹ کے حکم میں کوئی خامی نظر نہیں آتی، مسٹر سبل نے زور دے کر کہا کہ یہ کارروائی بدنیتی پر مبنی ہے۔ ہم پانچ فیصد بچوں سے 20 روپے وصول کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ منافع بخش ادارہ نہیں ہے۔ ان کا کہناتھا کہ یہ معاملہ 200 سے زائد طلباء کے مستقبل سے بھی وابستہ ہے۔
تاہم ان کی درخواست پر عدالت نے سیکریٹری آف اسٹیٹ (اسکول ایجوکیشن یا مجاز اتھارٹی) کو ہدایت کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہے۔
اتر پردیش حکومت نے ہائی کورٹ کے سامنے دلیل دی تھی کہ یہ ‘اقربا پروری’ کا معاملہ ہے، جہاں کابینی وزیر (اس وقت) خود انسٹی ٹیوٹ چلانے والے ایک نجی ٹرسٹ کے چیئرمین (زمین کی الاٹمنٹ کے وقت) ہیں۔ قانون میں مقررکردہ طریقہ کار کو نظرانداز کرکے تمام منظوریاں انہوں نے دی ہیں۔ حکومت کی طرف سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ اعلیٰ تعلیم (ریسرچ انسٹی ٹیوٹ) کے مقصد کے لیے حاصل کی گئی زمین کو رام پور پبلک اسکول چلانے کے لیے استعمال کیا جا رہاتھا۔