سپریم کورٹ سےمطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ الیکشن کمیشن کو ووٹر ٹرن آؤٹ کی صحیح تعداد بتانے اور فارم 17 سی کا اسکین شدہ کاپی ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنے کا حکم دے۔ عدالت نے اس پرفوری سماعت سے انکار کردیا۔
سپریم کورٹ نے اس عرضداشت پر فوری طور پر غور کرنے سے انکار کر دیا ہے جس میں الیکشن کمیشن کو ووٹر ٹرن آؤٹ کی صحیح تعداد بتانے اور فارم 17 سی کی کاپیاں اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کی ہدایت کی مانگ کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ کل چھٹا مرحلہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کی سماعت انتخابات کے بعد ہونی چاہیے۔
دراصل لوک سبھا انتخابات کے دوران کئی سیاسی پارٹیوں نے ووٹنگ کے اعداد و شمار میں بے ضابطگیوں کا الزام لگایا۔ سیاسی پارٹیوں کا کہنا ہے کہ انتخابات کے دن ووٹنگ کا فیصد کچھ اور ہوتا ہے اور ہفتے بعد کچھ اور۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔ اس درخواست میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو فارم 17 سی کی اسکین شدہ کاپی اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کا حکم دے۔
یہ درخواست ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز ( اے ڈی آر) اور ترنمول لیڈر مہوا موئترا کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔ اس کی سماعت جسٹس دیپانکر دتہ اور جسٹس ستیش چندر شرما کی بنچ نے کی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے اس درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ درخواست سماعت کے لائق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانونی عمل کے غلط استعمال کا کلاسک کیس ہے۔ ملک میں الیکشن چل رہے ہیں اور بار بار اس طرح درخواستیں داخل کی جا رہی ہیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ منیندر سنگھ نے کہا کہ ان درخواست گزاروں پر بھاری جرمانہ عائد کیا جانا چاہیے۔ ایسے لوگوں کا اس قسم کا رویہ ہمیشہ انتخابات کے تقدس پر سوالیہ نشان لگا کر عوامی مفاد کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محض خدشات کی بنیاد پر جھوٹے الزامات لگائے جا رہے ہیں جبکہ سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں تمام پہلوؤں کو واضح کر دیا ہے۔ ایڈووکیٹ منیندر سنگھ نے کہا کہ لوک سبھا انتخابات کے دوران کمیشن کو بدنام کرنے کی مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں۔ موجودہ قانون کے مطابق فارم 17 سی کو ای وی ایم اور وی وی پیٹ کے ساتھ اسٹرانگ روم میں رکھا جاتا ہے۔ یہ الزام لگایا گیا ہے کہ حتمی اعداد و شمار میں 5 سے 6 فیصد کا فرق ہے۔ یہ الزام سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ انتخابی عمل جاری ہے اور کمیشن کو مسلسل بدنام کیا جا رہا ہے۔
ان دلائل کو سننے کے بعد سپریم کورٹ نے درخواست داخل کرنے کے وقت پر سوالات اٹھائے۔ جسٹس دیپانکر دتہ نے درخواست گزار کے وکیل دشینت دوے سے پوچھا کہ انتخابی عمل شروع ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں یہ درخواست کیوں دائر کی گئی؟ جسٹس دیپانکر دتہ نے اے ڈی آر کے وکیل دشینت دوے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم کئی طرح کی پی آئی ایل دیکھتے ہیں۔ کچھ عوامی مفاد میں ہیں اور کچھ پیسے کے مفاد میں۔ لیکن ہم آپ کو بتا سکتے ہیں کہ آپ نے یہ عرضی صحیح وقت پر اور مناسب مطالبہ کے ساتھ دائر نہیں کی ہے۔ آخر میں بنچ نے کہا کہ اس مرحلے پر ہم عبوری ریلیف دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ نے درخواست کو زیر التوا رکھا جس پر بنچ گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد باقاعدہ سماعت کرے گا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ملک میں الیکشن ہو رہے ہیں اس لیے ہم کوئی حکم جاری نہیں کریں گے۔