شامی حکومت کی کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی تردید ‘باغیوں کو رسد کی فراہمی کا راستہ بند
شام کے دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقے مشرقی غوطہ میں ملکی فوج کے حملے جاری ہیں۔ شامی مبصرین برائے انسانی حقوق کے مطابق بشار الاسد کی فوج نے غوطہ کے سب سے بڑے شہر دوما کے راستے منقطع کردیے ہیں جبکہ فوج نے خطے کو تین حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق سرکاری فوج نے تقریباً نصف علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور اس دوران شامی اور روسی افواج کے فضائی اور زمینی حملوں میں ایک ہزار سے زائد شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔ شامی حکومت کی حکمت عملی بڑی واضح ہے جس میں مشرقی غوطہ کو مختلف حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے یہاں موجود مزاحمت کاروں کی حمایت اور رسد کے نیٹ ورک کو ختم کرنا ہے اور حکومت کو اب بظاہر اس مقصد میں کامیابی حاصل ہو گئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق فوج نے وسطی شہر مصرابا پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور اب شہر کے اطراف میں واقع کھیتوں پر قبضے کے لیے کارروائی جاری ہے۔
مصرابا اس اہم شاہراہ پر واقع ہے جو مشرق میں واقع شہر دوما کی طرف جاتی ہے اور ساتھ ہی مغرب میں بڑا شہر حرستا واقع ہے۔اگر غوطہ کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی تصدیق ہو جاتی ہے تو اس صورت میں دوما اور اس کے ملحقہ شہر مغرب میں ہوں گے جبکہ باقی علاقے جنوب میں تقسیم ہو جائیں گے۔ دوسری جانب ذرائع ابلاغ کے مطابق دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقے مشرقی غوطہ میں امدادی اداروں کی جانب سے خوراک پہنچنا شروع ہو گئی ہے تاہم علاقے پر شامی فوج کے حملوں کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری ہے۔
امدادی ادارے ریڈ کراس کے 13 ٹرک سامان لے کر مشرقی غوطہ پہنچے اور بمباری کے باوجود امدادی اشیا تقسیم کی گئیں۔ جنگی صورتحال پر نظر رکھنے والے شامی ادارے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ان حملوں میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔مشرقی غوطہ میں شامی فوج کے حملوں میں تیز ی آگئی۔ فوج کی پیش قدمی جاری ہے۔ فوج نے باغیوں کے زیر قبضہ آدھے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے جبکہ حملوں میں جاں بحق افراد کی تعدادایک ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔شامی حکومت نے کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی تردید کی ہے۔
شام کی حکو مت نے مشرقی غوط میں پھنسے افراد کے انخلاء کے لیے دوسرا متبادل راستہ کھول دیا۔ادھر شامی وزیر خا رجہ نے ملک کے کسی بھی حصے میں کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ایسے ہتھیاروں کا کوئی جواز نہیں ہے۔علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزین نے کہا ہے کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ شامی پناہ گزین اپنے علاقوں کو لوٹ سکتے ہیں کیونکہ وہاں صورت حال اب بھی غیر محفوظ ہے۔