عراق اور شام میں اسلام کی نام نہاد پرچارک تنظیم ’داعش‘ نے اسلام کے تاریخی مقامات اور مساجد کو ایسی تباہی سے دوچار کیا ہے جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔
آئی ایس آئی کی تباہ کاریوں کا نشانہ بننے والی مساجد میں شام کے شمالی شہر حلب کی تاریخی جامع مسجد الکبیر بھی شامل ہے۔ یہ مسجد مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی امین تھی مگر آج اس کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اگر اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک آج زندہ ہوتے تو اپنی قائم کردہ مسجد الکبیر کی حالت زار دیکھ کر زار و قطار روتے۔ جامع مسجد الکبیر کسی ایک دور کی نہیں بلکہ کئی عہدوں اور حکومتوں کی یادگار اور تہذیبوں اور ثقافتوں کی عینی شاہد ہے مگر آج اس کے درو بام جس تباہی کی گواہی دے رہےہیں اس سے اندازہ لگانا آسان ہے کہ آج اس مسجد کو کس بے رحمی کے ساتھ برباد کیا گیا ہے۔
اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے حلب کی جامع مسجد الکبیر کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس کے بعد آنے والے ہر دور میں وقت کے بادشاہوں اور امراء کی اس کی تزئین وآرائش اور اس کی توسیع ومرمت کو اپنی ذمہ داری سمجھا۔ بعض جنگوں میں اس مسجد کو آگ لگی اور مسجد کو نقصان بھی پہنچا مگر سلاطین، سلاجقہ، ممالیک اور عثمانی خاندانوں نے جامع مسجد الکبیر کی مرمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
سنہ 962ء میں رومی شہنشاہ ’نفقور فوکاس‘ نے جامع مسجد الکبیر کو نذرآتش کرنے کی مذموم کوشش کی مگر سعد الدولہ نے جلد ہی اس کی مرمت کرکے اسے پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کردیا۔ سنہ 1169ء میں جامع مسجد الکبیر میں آگ بھڑک اٹھی تو مشہور زمانہ انصاف پسند بادشاہ نور الدین زنگی نے نہ صرف اس کی مرمت کی بلکہ اس کی توسیع بھی کی۔ مگر اسد رجیم نے تو مسجد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔ جنگی طیاروں سے بمباری، راکٹوں اور میزائل حملوں کے نتیجے میں جامع مسجد الکبیر کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے۔
جامع مسجد الکبیر پرانے حلب شہر کی ’الجلوم‘ کالونی میں واقع ہے۔ سنہ1986ء میں اقوام متحدہ کی تنظیم برائے سائنس و ثقافت ’یونیسکو‘ نے جامع مسجد الکبیر کو عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ قرار دیا۔ مسیحی روایات کے مطابق یوحنا المعمدان کے والد حضرت زکریا علیہ السلام کا مزار بھی اسی جگہ واقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہالیان حلب اسے مسجد زکریا علیہ السلام کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔
سنہ 715ء میں اموی خلیفہ نے جامع مسجد الکبیر کا سنگ بنیاد رکھا اور 717ء کو سلیمان بن عبدالملک نے اس کی تعمیر شروع کی۔
جامع مسجد الکبیر کی تاریخی حیثیت پر روشنی ڈالی ہے۔ تاریخی مصادر ومآخذ سے معلوم ہوتا ہے کہ جامع مسجد الکبیر جس جگہ تعمیر کی گئی اسے ’الاغور‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اغور کا معنی دائرے کی شکل کی جگہ کے لیے جاتے ہیں۔ ہلنسی کے قبل مسیح عہد میں یہ جگہ سیاسی، روحانی اور کھیلوں کے اکھاڑے کے طور پر مشہور تھی۔ شام پر سینٹ ھیلینا کی حکومت کے دور میں کیھتڈرل پارک مین تبدیل کیا گیا۔
موجودہ جامع مسجد الکبیر جو اب حقیقی معنوں میں کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہے کا ایک وسیع صحن ہے جس کی وسعت 79×47 میٹر ہے۔ مسجد کا اندرونی حصہ 4 صفوں کی تقسیم کے اعتبار سے 80 ہے جسے تین گیلریوں نے گھیر رکھا ہے۔ مسجد کے اندرونی اور بیرونی حصے پر زرد اور سیاہ رنگ کے سنگ مرمر نصب ہیں اور اس کی تعمیر میں مسلمان ماہرین تعمیرات نے اپنا خون پسینہ ایک کرکے اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگائے رکھے۔
مسجد الکبیر کے صحن کے جنوبی حصے میں حضرت زکریا علیہ السلام کا مزار ہے اور پندرہویں صدی عیسوی کا تعمیر کردہ ایک منبر ہے۔ اس میں ایک شاندار محراب شاہ الظاہر بیبرس کی یاد تازہ کرتا ہے۔ زرد رنگ کا محراب حنابلہ کی نشانی ہے، محراب الکبیر الشافعیہ، مغربی محراب احناف اور مشرقی مالکیہ کے لیے مختص ہے۔
مسجد کے چار بڑے داخلے دروازے ہیں۔ مسجد کی شمالی سمت میں داخلی دروازے کے ساتھ ہی ایک مینار ہے۔ مغربی دروازہ المسامیریہ شاہراہ کی طرف کھلتا ہے۔ مشرقی المنادیل رومال بازار سے متصل جب کہ جونبی دروازہ النحاسین بازار کی طرف ہے۔
مسجد کا ایک دیرینہ مینار سنہ 2013ء میں راکٹ حملے میں شہید ہوگیا۔ یہ مینار 1078ء میں تعمیر کیا گیا جس کی اونچائی 45 میٹر اور اضلاع کی لمبائی 4.95 میٹر ہے۔
شام میں سنہ 2011ء کے بعد سے بشارالاسد کی حکومت کے خلاف جاری جنگ میں جامع مسجد الکبیر بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ شامی فوج اور باغیوں کے درمیان جاری لڑائی میں جامع مسجد الکبیر کے تاریخی حصوں مصلیٰ الرواقین، شمالی اور جنوبی حصے آتش زدگی سے تباہ ہوئے۔ آتش زدگی کے نتیجے میں جامع مسجد سےملحقہ مخطوطات، سیکڑوں نایاب کتب کا ذخیرہ بھی جل کر خاکستر ہوگیا۔