سوچی (رائٹرز) روس کے صدر ولادیمر پیوٹن نے کہا ہے کہ روسی اور ترک افواج شام کے صوبے ادلب میں ایک نئے غیر فوجی زون کے قیام کیلئے کام کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کے روز اپنے ترک ہم منصب سے ملاقات کے بعد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 15 اکتوبر سے شامی مسلح اپوزیشن اور حکومتی افواج کے درمیان ایک رابطہ لائن مقرر کی جائے اور 15 سے 20 کلو میٹر کے رقبے پر محیط غیر فوجی زون قائم کیا جائے۔
اس غیر فوجی زون کی نگرانی ترک فوجی یونٹس اور روسی ملٹری پولیس کے یونٹس کرینگے۔ اس موقع پر ایردوان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے ہم نے ادلب کو ایک بڑے انسانی المیے سے بچالیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن ان علاقوں میں بدستور موجود رہے گی جہاں وہ پہلے سے موجود تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے بدلے میں ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ سخت گیر نظریات کے حامل گروہ ان علاقوں میں اپنی سرگرمیاں نہ کرسکے جس کا تعین روس کے ساتھ مل کر کیا جائے گا۔
اس بفرزون کے قیام کے لئے وہاں سے آئندہ ماہ کے وسط تک باغیوں کا نکلنا ضروری ہوگا۔ شامی صدر بشارالاسد کا اہم اتحادی روس ادلب میں باغیوں کے خلاف لڑائی کی تیاریاں کررہا تھا تاہم پیوٹن کی ترک صدر رجب طیب ایردوان سے ملاقات کے بعد روسی وزیردفاع سرگئی لاوروف نے صحافیوں کو بتایا کہ ادلب میں کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
ایردوان ادلب پر حملے کے مخالف ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ اس کارروائی سے ترکی پر شامی مہاجرین کا مزید بوجھ پڑے گا جو پہلے ہی ساڑھے 35 لاکھ مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے۔ ترک صدر کا کہنا ہے کہ یہ معاہدے حزب اختلاف کے حامیوں کو موقع دے گا کہ وہ جہاں موجود ہیں وہیں رہیں اور ایک انسانی المیہ سے بچا جائے۔ ایردوان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیوٹن کا کہنا تھا کہ ہم نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ 15 اکتوبر سے شامی مسلح اپوزیشن اور حکومتی افواج کے درمیان ایک رابطہ لائن مقرر کی جائے اور 15 سے 20 کلو میٹر کے رقبے پر محیط غیر فوجی زون قائم کیا جائے جبکہ اس علاقے سے سخت گیر نظریات کے حامی باغی بشمول النصرہ فرنٹ کے جنگجوئوں کا انخلا ہو۔
ایردوان کے برابر میں کھڑے پیوٹن کا کہنا تھا کہ انہوں نے ترک صدر کی اس تجویز پر اتفاق کیا ہے کہ 10 اکتوبر سے مجوزہ غیر فوجی زون سے بھاری ہتھیار، ٹینکس، راکٹ سسٹمز اور اپوزیشن گروہوں کے تمام مارٹرز گولوں کو خالی کروالیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس غیر فوجی زون کی نگرانی ترک فوجی یونٹس اور روسی ملٹری پولیس کے یونٹس کرینگے۔
اس حوالے سے نہ ہی پیوٹن نے بتایا اور نہ ایردوان نے کہ کس طرح وہ انتہائی سخت گیر نظریات کے حامل باغیوں اور بشارالاسد کے مخالف حزب اختلاف کے گروہوں کے درمیان فرق کریں گے۔ فوری طور پر یہ بھی واضح نہیں ہوسکا ہے کہ ادلب شہر کا کتنا حصہ اس بفرزون میں آئے گا۔ ادلب کئی باغی گروہوں کے قبضے میں ہے جس میں سب سے زیادہ طاقتور تحریر الشام ہے جو القاعدہ سے منسلک سابقہ النصرہ اور دیگر گروہوں کا مجموعہ ہے۔ دیگر اسلام پسند گروہوں میں فری سیرین آرمی جیسے گروہ شامل ہیں جسے نیشنل فرنٹ فار لبریشن کے بینر تلے ترکی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایردوان کا کہنا تھا کہ روس اس حوالے سے لازمی طور پر ضروری اقدامات کرے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ غیر فوجی زون قرار دیے گئے علاقے پر کوئی حملہ نہ ہوسکے اور اس معاملے پر ہم مشترکہ طور پر کسی تیسرے فریق کو بھی جارحیت یا معاہدے کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیں گے۔