تنظیم علی کانگریس کے روح رواں مرحوم الحاج جاوید مرتضیٰ طاب ثراہ کی تاریخ پیدائش پہ اراکین تنظیم علی کانگریس کی جانب سے ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے عارف آشیانہ لکھنؤ میں ایک جلسے کا انعقاد کیا گیا۔
جلسہ کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ ابتدائی تقریر میں اپنے والد بزرگوار کی شخصیت اورافکار سے متعارف کرانے اور دور حاضر میں ان افکار کی ضرورت اور اہمیت کو بتاتے ہوئے روبینہ مرتضیٰ نے کہا کے آج کے یہ حالات یہ ہیں کہ لوگ خود کو مزہبی ظاہر کرنے کے لئے دوسرے مذہب کے لوگوں سے نفرت کرنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ کہیں مذہب کہیں مسلک تو کہیں کسی اور بات کی بنا پر انسانی خون بہایا جا رہا ہے اور بہانے والے بھی انسان ہی ہیں جو اپنی انسانیت بھول چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے میں مرحوم جاوید مرتضیٰ کی تدفین کے وقت کا ان کے چاہنے والوں کے ان اقوال سے اندازہ ہوتا ہے کہ جاوید مرتضیٰ کس معیار کے انسان تھے، ایک طرف تو ایک مسلمان شخص جن کا تعلق شیعہ فرقے سے تھا وہ رو رو کے کہہ رہے تھے کہ ہم پیدا ضرور مسلمان گھر میں ہوۓ لیکن ہم کو صحیح معنوں میں مسلمان اس شخص نے بنایا۔ وہیں دوسری طرف مرحوم کے بارے میں دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے ان کے جونیئر کا کہنا تھا کہ ” ہمارے لیے تو وہ بھگوان کا اوتار تھے”
– انہوں مذید کہا کہ اگر کوئی ہندو کسی مسلمان کو بھگوان کا اوتار کہے اور ایک مسلمان اسی شخص کو حقیقی مسلمان بنانے والا کہے تو اس سے بڑھ کے کسی کی تعریف میں اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ یہ کلمات اسی شخص کے لئے کہے جا سکتے ہیں جو میدان عمل میں کامیاب ہو۔ پھر انہوں نے ان کے انقلابی افکار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جاوید مرتضیٰ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ اصلاح فکر ہی اصل اصلاح ہے، اگر فکر کی اصلاح کی کوشش نہ کی جاۓ تو کسی فلاحی کام سے فائدہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے اس بات کا ذکر بھی کیا کہ جاوید مرتضیٰ صاحب دین کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنانے کے سخت خلاف تھے ان کا ماننا تھا کہ ” کمرشلایزیشن آف رلیجن” اگر ختم ہو جائے تو صرف مخلص افراد ہی تبلیغ دین کریں گے۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کے دین کے نام پہ دنیا کمانے والے مذہبی رہنما اپنے اپنے مذہب کے ماننے والوں کا جزباتی استحصال کرتے ہیں اور انکو دین کی حقیقت سے دور رکھتے ہیں، اگر ایسے دین کے نام پر اپنے شکم سیر کاتنے والے افراد کی جگہ مخلص رہنما آ جائیں تو صورتحال میں مثبت تبدیلی ممکن ہے، لیکن اسکا واحد طریقہ یہی ہے کہ مذہب سے تجارت کو ختم کر دیا جائے۔
شرکاء میں سے بہت لوگوں نے مرحوم جاوید مرتضیٰ صاحب کی نیک صفات کا ذکر کیا۔ کسی نے ان کی دانشوری کو یاد کیا تو کسی نے ان کی قانونی لیاقت کی تعریف کی۔ کسی نے غریب ضرورت مند کی ان کے زریعے کی گئی مفت قانونی امداد کا ذکر کیا تو کسی نےان کی ایمانداری اور شرافت کی گواہی دی، کسی نے عالم با عمل کہا تو کسی نے فرشتہ کہا تو وہیں کسی کی آنکھیں ان کے اخلاق کی تعریف کرتے کرتے نم ہو گئیں۔
واضح رہے کہ جاوید مرتضیٰ مرحوم اپنے وقت کے مشہور اور انتہائی قابل وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک با عمل عالم دین بھی تھے جنہوں زندگی میں پریشانیاں اٹھانا گوارا کیا لیکن کبھی کسی غلط بات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
اس جلسے میں مختلف مذاہب اور مکتب فکر کے لوگ موجود تھے جن میں معروف سماجی کارکن ڈاکٹر سندیپ پانڈے، شاہد منظر عباس رضوی(آی۔اے۔ایس)، محمد شعیب ایڈووکیٹ، عمران احمد ایڈوکیٹ، عاصم محمد ایڈوکیٹ، فرقان احمد ایڈوکیٹ، لوی نواب، رضوان احمد قاروقی، ڈاکٹر صبحی زیدی،ڈاکٹر منصور حسن، زولکفل رضوی، سردار نقی لعل، محمد حسین رضوی ایڈوکیٹ، بہار اختر زیدی،ڈاکٹر ضیاء، عباس نگار، سابق زیدی، قائم رضا، امیر مہدی ایڈوکیٹ، انوپ کمار شریواستو، اطہر سلیم خان، ڈاکٹر آکاش وکرم، ڈاکٹر آر- ورما، شہزاد عباس اڈوکیٹ، اطہر سلیم خان،آدی یوگ امیر حیدر، عبد انصیر ناصر وغیرہ شامل تھے۔
محمد حسین رضوی صاحب نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔