تنطیم علی کانگریس کی جانب سے یوم جمہوریہ کے مبارک موقع پر ایکتا لان تحسین گنج لکھنؤ میں ایک علمی نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں “نفس جمہوریت ہند و آئین ہند ” پر گفتگو کی گئی، اس پروگرام میں اراکین تنظیم علی کانگرس کے علاوہ شہر لکھنؤ کے مختلف مکتب فکر کے با وقار افراد نے شرکت کی اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
تنظیم کی صدر روبینہ مرتضیٰ نے کہا کہ ہم اپنے ملک کے آئین کی اگر اس خوبی کی بات کریں جو کہ اس کا اصل ہے یا اس کا نفس ہے تو وہ ہے ملک کے ہر فرد کے حقوق انسانی کے لئے اسکو محافظ بنانے کی بھرپور کوشش اسے بنانے والوں کی گئی۔
حقوق انسانی کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے اس میں ” Equality before Law ” کے اصول کو اپنایا گیا تاکہ کسی قسم کے تعصب کی بنا پر کسی ہندستانی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہونے پائے۔
جب بھی بات ہوتی ہے حقوق انسانی کی تو سب سے پہلے جس حق کا ذکر آتا ہے وہے ” زندہ رہنے کا حق”، اسی زندہ رہنے کے حق کے ساتھ کئی دوسرے حقوق منسلک ہے جنہیں اس زندگی جینے کے حق سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
اس بات کو حقوق انسانی کی بات کرنے والے تمام اداروں نے تسلیم کیا ہے اور ہمارے سپریم کورٹ نے بھی باقاعدہ اس سلسلے میں کہا ہے کہ انسانی زندگی محض ایک “animal existence” نہیں ہے۔
تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ وہ تمام چیزیں انسانی زندگی کا حصہ ہیں جو اسے انسانی معار بخشتی ہیں اور اس کے وجود کے ساتھ منسلک ہیں؛ جیسے زبان، نسل، مذہب وغیرہ، اس کے لئے بھی اس کو آزادی دی جانی چاہۓ۔ نہ ان چیزوں کو زبردستی اس سے چھینا جا سکتا ہی اور نہ ہی زبردستی ان کو کسی پر مسلط کیا جا سکتا ہے۔
اس لئے ہمارے ملک کا “سپریم لاء آف لینڈ ” اس بات سے واسطہ نہیں رکھتا کہ ملک کے کس باشندے کا مذہب کیا ہے؟ نہ وہ اس بنا پر کسی سے کوئی نفرت کرتا ہے نہ رعایت کرتا ہے۔جناب حیدر عباس صاحب، امیر مہدی اڈوکیٹ، معروف سماجی کارکن طاہرہ حسن، محترمہ صبحی، جناب ادریس صاحب اور مینک ورما ایڈوکیٹ نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اس موقع پر تنظیم کی جانب سے وقف امینڈمینٹ بل پر ایک خط جناب جگدمبیکا پال صاحب اور لوک سبھا سپیکر اوم برلا صاحب کو ای۔ میل کے ذریعے ارسال کیا گیا جس میں وقف کے حالات، وقف امینڈمینٹ بل پر اٹھنے والے سوالات اور اس کے بے چینی پیدا کرنے والے پوائنٹس کی طرف توجہ دلانے کی کوشش گئی ہے۔پروگرام میں موجود حضرات نے اس خط کو پڑھ کر اس سے متفق ہونے کا اظہار کیا