میانمار کے قومی جمہوری اتحاد نے کہا ہے کہ آنگ سان سوچی کو گھر میں نظر بندی کے دوران فوج نے کسی نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
اسپوتنک کی رپورٹ کے مطابق میانمار کے قومی جمہوری اتحاد نے کہا ہے کہ فوج نے آنگ سان سوچی کو دارالحکومت سےکسی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔
در ایں اثناء میانمار میں یکم فروری کی فوجی بغاوت کے بعد ملک بھر میں عوام اور فوجی حکام کے درمیان کشیدگی جاری ہے۔ ینگون میں فوج کے حامی جتھوں نے بغاوت مخالف مظاہرین پر دھاوا بول دیا، پولیس کی فائرنگ سے بھی متعدد مظاہرین زخمی ہوگئے۔
سب سے بڑے شہر ینگون میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے، عسکری حکام کے حمایت یافتہ جتھوں نے مظاہرین پر چاقوؤں اور ڈنڈوں سے حملہ کر دیا۔ پولیس نے بھی مظاہرین پر فائر کھول دیئے۔
قابل ذکر ہے کہ یکم فروری کو میانمار کی فوج نے حکومت کا تختہ الٹ کر آنگ سان سوچی سمیت پارلیمنٹ کے منتخب نمائندوں کو گرفتارکرلیا تھا۔ فوج نے ایک سال کے لئے ہنگامی حالات نافذ کردی اور اس کے بعد انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تاہم فوجی کودتا کے خلاف میانمار میں عوامی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور مظاہرین جمہوری حکومت کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
یہ ایسے میں ہے کہ اب سے کچھ عرصے پہلے تک آنگ سان سوچی کی حمکراں جماعت، فوج کے ساتھ مل کر میانمار کی مسلم اقلیتی آبادی روہنگیا کے خلاف برسر پیکار تھی اور انہوں نے مل کر روہنگیا کے غریب، مظلوم اور نہتے عوام پر ہولناک اور انسانیت سوز مظالم ڈھائے جس کے تحت کئی ہزار روہنگیا مسلمان نہایت دلخراش انداز میں قتل کر دیئے گئے جبکہ فوج اور حکومت کے انتہاپسندانہ اور ہولناک جرائم سے تنگ آکر تقریبا دس لاکھ روہنگیا مسلمان پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔