ترکیہ اور شام میں گزشتہ روز آنے والے تباہ کن سلسلہ وار زلزلوں سے زمین بوس ہوجانے والی عمارتوں کے ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کا عمل شدید سرد موسم کے باوجود جاری ہے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 5 ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔
خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ترکیہ کی ڈیزاسٹر میجنمنٹ اینڈ ایمرجنسی مینجمنٹ اتھارٹی (اے ایف اے ڈی) کا کہنا ہے کہ اموات کی تعداد 3 ہزار 419 ہوگئی ہے۔
اتھارٹی کا کہنا تھا کہ زلزلے کے بعد اب تک 285 آفٹر شاکس آچکے ہیں، جس کے نتیجے میں 5 ہزار 775 عمارتیں تباہ ہوئی جبکہ زخمیوں کی تعداد 285 ہے۔
ترکی کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی نے کہا کہ 13 ہزار سرچ اینڈ ریسکیو اہکار تعینات کیے گئے ہیں اور متاثرہ علاقوں میں 41 ہزار خیمے، ایک ہزار بستر اور 3 لاکھ کمبل روانہ کیے جاچکے ہیں۔
اس سے قبل ترکیہ میں سال1999 میں مہلک ترین زلزلہ آیا تھا جس میں 17 ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
شام کی حکومت اور ریسکیو سروس کے مطاق گیارہ سال سے جاری جنگ سے متاثرہ ملک میں اب تک 1500 ہلاکتیں رپورٹ ہوچکی ہیں۔
جنوب مشرقی ترکیہ میں قہر مان مرعش کے شہر میں عینی شاہد زلزلے سے ہونے والی تباہی کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
23 سالہ صحافی میلیسا سلمان نے کہا کہ ’ہمیں لگا قیامت آگئی، ایسی صورتحال ہم نے پہلی مرتبہ دیکھی ہے۔
پیر کے روز آنے والے زلزلے سے صرف ترکی میں اب تک 16 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں جبکہ ہلاکتوں میں بے تحاشہ اضافے کا خدشہ ہے اور عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق اس بدترین تباہی کے نتیجے میں اموات کی تعداد 20 ہزار ہوسکتی ہے۔
غازی انتیپ، جہاں شام میں ایک دہائی طویل جنگ سے پناہ کے لیے ترکیہ آنے والے ہزاروں افراد قیام پذیر تھے، وہاں ریسکیو ورکرز چیختے اور روتے ہوئے ملبے کو ہٹانے میں مصروف تھے کہ یکایک ایک اور عمارت منہدم ہوگئی۔
ابتدائی زلزلہ اتنا شدید تھا کہ اسے گرین لینڈ جتنا دور محسوس کیا گیا اور اس کے اثر نے عالمی ردعمل کو جنم دیا ہے۔
یوکرین سے لے کر نیوزی لینڈ تک درجنوں ممالک نے امداد بھیجنے کا عزم ظاہر کیا ہے تاہم شدید سرد موسم اور نقطہ انجماد نے کارروائیوں کو سست کردیا ہے۔
صرف ترکیہ میں زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد 2 ہزار 921 تک پہنچ چکی ہے
انتہائی سرد موسم کے باوجود خوف میں جکڑے رہائشیوں نے رات سڑک پر گزاری اور گرمی کے لیے آگ کے الاؤ روشن کیے۔
ایک رہائشی نے بتایا کہ میرا جاننے والا ایک خاندان ملبے تلے دبا ہوا ہے، صبح 11 بجے تک میری دوست فون کا جواب دے رہی تھی لیکن اس کے بعد سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، وہ بھی ملبے کے نیچے ہے۔
ایک 55 سالہ رہائشی نے ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم گھر نہیں جاسکتے، ہر کوئی خوفزدہ ہے‘۔
سب سے زیادہ تباہی غازی انتیپ اور قہر مابین کے درمیان زلزلے کے مرکز پر ہوئیں جہاں پورا شہر ملبے کے ڈھیر میں بدل گیا۔
قیامت خیز زلزلہ
امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق پیر کو پہلا زلزلہ 20 لاکھ آبادی پر مشتمل قہر مان اور غازی انتیپ شہر کے درمیان مقامی وقت کے مطابق صبح 4 بج کر 17 منٹ پر آیا جس کی گہرائی 18 کلومیٹر تھی۔
حکام نے بتایا کہ 3 بڑے ایئرپورٹس بھی زلزلے کے باعث غیر فعال ہوچکے ہیں جس سے انتہائی اہم امداد پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
شمالی شام کا زیادہ تر زلزلہ زدہ علاقہ پہلے ہی برسوں کی جنگ اور شامی اور روس کی افواج کی فضائی بمباری سے تباہ ہو چکا تھا جس میں گھر، ہسپتال اور کلینکس شامل ہیں۔
تاہم اقوام متحدہ میں شام کے ایلچی بسام صباغ نے بظاہر سرحدی گزرگاہوں کو دوبارہ کھولنے سے انکار کردیا ہے جس سے باغی گروپوں کے زیر کنٹرول علاقوں تک امداد پہنچ سکے گی۔
شام کی وزارت صحت نے بتایا ہے کہ قدرتی آفت کے باعث حلب، لطاکیہ، حما اور طرطوس کے صوبوں میں نقصان ہوا ہے۔
اس سانحے سے پہلے ہی شام کے جنگ سے پہلے کے تجارتی مرکز حلب میں عمارتیں اکثر خستہ حال انفرااسٹرکچر کی وجہ سے منہدم ہوجاتی ہیں جن کی جنگ کی وجہ سے دیکھ بھال اور مرمت نہیں ہوسکی تھی۔
حکام نے احتیاطی طور پر پورے خطے میں قدرتی گیس اور بجلی کی سپلائی منقطع کر دی ہے اور اسکولوں کو بھی دو ہفتوں کے لیے بند کردیا۔
شمال مغربی شام میں قائم جیل جہاں زیادہ تر داعش کے ارکان قید ہیں، قیدیوں نے زلزلے کے بعد بغاوت کی اور کم از کم 20 فرار ہوگئے۔
امریکا، یورپی یونین اور روس سب نے فوری طور پر تعزیت اور مدد کی پیشکش بھیجی۔