لکھنؤ: انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن نے دعویٰ کیا تھا کہ تمام پولنگ مراکز پر بزرگ رائے دہندگان کیلئے وہیل چیئر جیسی سہولیات مہیا رہیں گی لیکن حقیقت میں کہیں بھی ایسا نظر نہیں آیا۔
پولنگ مراکز پر وہیل چیئر نہ ہونے کے سبب کمزور اور بزرگ ووٹروں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کہیں وہ اپنے معاون کے کندھوں کے سہارے پولنگ بوتھ تک پہنچے توکہیں خود ہی واکر کے سہارے چل کر کافی مشکل سے پولنگ مرکز کے اندر پہنچ پائے۔پرانے لکھنؤ کے درجنوں پولنگ مراکز ایسے تھے جہاں پولنگ بوتھ داخلی دروازے سے تقریباً تیس فٹ تک کے فاصلہ پر تھا۔ بوتھ تک پہنچنے کیلئے لوگوں کو کافی دور پیدل چلنا پڑتا تھا۔ عام آدمی کیلئے یہ معمولی بات تھی لیکن کمزور اور بزرگ رائے دہندگان کیلئے مشکلوں بھرا سفر تھااس سفر کو آسان بنانے کیلئے الیکشن کمیشن نے پولنگ مراکز پر وہیل چیئر کے انتظامات کے احکامات جاری کئے تھے لیکن کسی پولنگ بوتھ پر وہیل چیئر نہیں نظر آئی۔
راجہ جی پورم کے سینٹر انجنیز پبلک اسکول کے پولنگ مرکز پر ووٹ ڈالنے آئیں ۸۲ سالہ بزرگ لیلاوتی جو پیدل چلنے سے لاچار تھیں اپنے بیٹے کے ساتھ ووٹ ڈالنے آئیں۔ لیلاوتی نے واکر کے سہارے بڑی مشکل سے پولنگ بوتھ تک کا پچاس میٹر کا فاصلہ طے کیا۔ ووٹ ڈالنے کے بعد بے حال لیلاوتی نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ بدنظمی پر ناراض لیلاوتی صرف اتنا ہی کہہ سکیں کہ ووٹنگ بوتھ اتنی دور نہیں ہونا چاہئے تھا۔ طبیعت خراب ہونے پر ان کے بیٹے نے انہیں کرسی پر بٹھاکر پانی پلایا اور کچھ دیر آرام کے بعد وہ واپس گھر جاسکیں۔ اسی طرح کی صورتحال ۸۰ سالہ کنیز فاطمہ کو بھی پیش آئی۔ وہ اپنے بیٹے، بہو اور بیٹی کے سہارے پولنگ مرکز تک پہنچیں۔ بدحال نظام کو دیکھ کرانہوںنے ناراضگی ظاہر کی اور کہا کہ حکومت کو کم سے کم ایسے مواقع پر تو انتظامات کو چاق و چوبند رکھنا چاہئے۔
۸۳ سالہ بزرگ شیتلا پرساد کا کہنا تھا کہ وہ کبھی بھی حق رائے دہی کے استعمال سے پیچھے نہیںرہے حالانکہ اب ان کی عمر کافی ہو چکی ہے وہ آسانی سے پیدل چل بھی نہیں پاتے۔
کنور جیوتی پرساد وارڈ کے راجہ جی پورم پولنگ مرکز پر ووٹ ڈالنے آئے ایک معذور شخص پون کمار بھی حکومت اور ضلع انتظامیہ کی لاپروائیوں اور کوتاہیوں پر کافی ناراض نظرآئے۔ انہوں نے کہا کہ پولنگ مراکز پر وہیل چیئر نہ ہونا بیحد شرم کی بات ہے۔ ایک جانب تو کمزور ، بزرگ اور معذور افراد اپنے عزیز و احباب کے کاندھوں کے سہارے پولنگ مراکز پہنچے جبکہ ڈیوٹی میں تعینات افسران کیلئے گاڑیوں کا نظم برقرار رہا۔