خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے مسئلہ فلسطین کے کرنٹ موضوع ’سینچری ڈیل‘ کے حوالے سے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل ’صابر ابومریم‘ سے ایک خصوصی گفتگو کی ہے جسے اپنے قارئین کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
تعارف
صابر ابو مریم کا تعلق پاکستان کے شہر کراچی سے ہے اور آپ پاکستان میں مظلوم فلسطینیوں کی موثر و توانا آواز فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل ہیں جبکہ پاکستان کی سب سے بڑی تعلیمی درسگاہ جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں ۔ آپ کا تحقیقی مقالہ بعنوان مسئلہ فلسطین اور انسانی حقوق کی پائمالی ہے ۔ صابر ابو مریم پاکستان کے معروف و نامور روزنامہ ایکسپریس اور روزنامہ پاکستان سمیت مختلف قومی و بین الاقوامی نیوز ایجنسیوں پر مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے اور عالمی صہیونزم کے خلاف اور امریکہ کی سامراجی سوچ اور نظام کے خلاف مقالہ بھی لکھتے ہیں ۔
صابر ابو مریم عالمی سطح پر متعدد این جی اوز کے بانی اراکین میں شمار ہوتے ہیں جن میں چیدہ چیدہ گلوبل کمپین ٹو ریٹرن ٹو فلسطین جس کا صدر دفتر بیروت میں واقع ہے اور اسی طرح سنہ۲۰۱۲ء میں فلسطین کی طرف ہونے والے عالمی مارچ برائے آزادی القدس کی مرکزی کمیٹی کے رکن اور پاکستان میں آرگنائزر رہے ہیں، اسی طرح ایشیائی ممالک کی این جی اوز ایشین پیوپل سولیڈیریٹی فلسطین کے بھی موسس رکن ہیں اور گذشتہ برس تہران میں قائم ہونے والی بین الاقوامی تنظیم و فورم برائے مقالہ نویس و ناشران کے موسس رکن اور سیاسی شوریٰ کے رکن ہیں ۔
خیبر: سب سے پہلے آپ اپنا تعارف پیش کریں اور یہ بتائیں کہ فلسطین فاونڈیشن کی پاکستان میں کیا سرگرمیاں ہیں، اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں اور تا حال آپ اس فاؤنڈیشن کے ذریعے کس حد تک عوام الناس کو مسئلہ فلسطین سے آگاہ اور اس کی افادیت سے روشناس کر پائیں ہیں؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم : فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کا قیام پاکستان کے شہر کراچی کی درسگاہ جامعہ کراچی سے سنہ۲۰۰۸ء میں ہوا تھا اور اس کے بنیادی اغراض ومقاصد میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات و افکار کے مطابق پاکستان میں مسئلہ فلسطین سے متعلق آگہی فراہم کرنا، مظلوم فلسطینیوں کی سیاسی واخلاقی حمایت کرتے ہوئے پاکستان میں بسنے والی مختلف اکائیوں کو ایک نقطہ یعنی فلسطین کی حمایت پر متحد و مرکوز کرنا ہے ۔ اللہ کے فضل سے اپنے قیام سے اب تک تمام عرصہ میں فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان نے مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کے لئے انتھک جد وجہد جاری رکھے ہوئے ہے اور جہاں تک عوام الناس کو آگاہی کس حد تک فراہم کئے جانے کا سوال ہے تو یہ فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کا امتیاز ہے کہ ملک بھر کے متعدد شہروں بشمول اسلام آباد، کراچی، لاہور، کوئٹہ، سکھر، حیدر آباد، پشاور و آزاد کشمیر جیسے علاقوں میں مختلف نظریات و فکر رکھنے والے افراد کے ساتھ مل کر کام کو جاری رکھے ہوئے ہے اور اپنے ہدف یعنی فلسطینیوں کی حمایت میں سرگرم عمل ہے ۔ آج پاکستان کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کی قیادت کے درمیان حتیٰ حکومتی حلقوں میں فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان ایک منفرد مقام پیدا کر چکی ہے جبکہ سول سوسائٹی اور طلباء تنظیموں سمیت یونینز اور یوتھ این جی اوز میں فلسطین فاؤنڈیشن اہمیت کی حامل ہے، ان تمام باتوں کے اثرات میں فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے تحت منعقد ہونے والے اجتماعات میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سرگرم عناصر کی شرکت اور تعاون ہے ۔ جہاں تک فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے موثر ہونے کا سوال ہے تو آج پاکستان کے گوش وکنار میں عوام الناس اور اداروں سمیت این جی اوز، تنظیمیں حتیٰ سینیٹ کی خارجہ قائمہ کمیٹی کے چیئرمین بھی مسئلہ فلسطین کے حوالے سے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کی جد وجہد کی تعریف کئے بنا نہیں رہتے ۔
خیبر: مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اس وقت کرنٹ موضوع سینچری ڈیل کا موضوع ہے تو آپ کی نظر میں کیا یہ معاملہ اور ڈیل ایک حقیقی ڈیل ہے یا صرف مسلمانوں کے جذبات کو بھانپنے کے لیے ایک ڈرامہ رچایا جا رہا ہے؟
۔ صدی کی ڈیل فلسطین اور اس کے عوام یعنی فلسطینی عربوں کے لئے ایک بہت بڑا دھوکہ اور خطر ناک سازش کے مترادف ہے ۔ سینچری ڈیل بالکل اسی طرح فلسطین کا سودا کرنے کے لئے تیار کی گئی ہے جس طرح آج سے ایک سو سال پہلے برطانوی استعمار کے جیمز بالفور نے اعلامیہ بالفور کے ذریعہ فلسطین پر صہیونیوں کی جعلی ریاست بنانے کا اعلان کیا تھا اور بد قسمتی سے دنیا کی سامراجی قوتوں نے اس اعلامیہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے صہیونیوں کا ساتھ دیا اور نتیجہ میں انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس پر صہیونیوں کی ایک جعلی ریاست اسرائیل قائم ہوئی تاہم آج دنیا کا سب سے بڑا شیطان امریکہ اور اس کے احمق صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی فلسطین کا سودا کرنے میں مصروف عمل ہیں لیکن تاحال ان کو ناکامی وذلت کا ہی سامنا ہوا ہے ۔ فلسطینیوں نے اس ڈیل کو مسترد کر دیا ہے اور امریکہ کو پیغام دیا ہے کہ امریکہ پیسہ کی لالچ اور بل بوتے پر فلسطینیوں کی مزاحمت اور جدوجہد آزادی کو دبا نہیں سکتا اور نہ ہی کچل سکتا ہے ۔ لہذا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ صدی کی اصل حقیقت امریکہ کی پیش کردہ سینچری ڈیل نہیں بلکہ فلسطینیوں کی پائیدار مزاحمت و استقامت ہی صدی کی حقیقت ہے ۔
خیبر: کیا یہ سچ میں مسئلہ فلسطین کا حل ہے یا فلسطینی عوام کے قتل کے لیے ایک نیا بہانہ ہے؟
۔ صدی کی ڈیل کسی بھی صورت میں مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ صدی کا ایک سب سے بڑا جھوٹ ہے اور صدی کی سب سے بڑی سچائی اور حقیقت فلسطینیوں کی مزاحمت ہے اور یہی واحد راستہ ہے کہ جو مسئلہ فلسطین کے صحیح حل کی طرف سب اکائیوں کو حرکت دے سکتی ہے ۔ لہذا صدی کی ڈیل زہر قاتل اور فلسطین سمیت عالم اسلام کی پیٹھ میں ایک خنجر گھونپنے کے مترادف ہے کہ جس کا بنیادی مقصد فلسطین کا خاتمہ اور صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو قانونی حیثیت فراہم کرنا ہے ۔ کیونکہ دنیا آج بھی اسرائیل کو ایک جعلی ریاست تصور کرتی ہے تاہم کوئی بھی امریکی فارمولہ یا سینچری ڈیل مسئلہ فلسطین کا حل نہیں ہو سکتی ۔
خیبر: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے یہودی داماد کے اس منصوبے کے پس پردہ کیا مقاصد مد نظر ہو سکتے ہیں؟
۔ امریکہ کے صدر ٹرمپ ہوں یا ان کے صہیونی داماد کشنر ہوں ! دراصل ان کا سب سے بڑا مقصد خطے میں اسلامی مزاحمت کی کامیابیوں کا راستہ روکنے کی ناکام کوشش کرنا ہے ۔ در اصل عالمی صہیونزم گریٹر اسرائیل جیسے منصوبوں میں سنہ۲۰۰۶ء کی لبنان اسرائیل جنگ میں شکست کھا چکے ہیں اس کے بعد یہی ناپاک منصوبہ داعش کی صورت میں ناکام ہوا ہے تاہم مسلسل ناکامیوں کے بعد اب یہ ایک نئے منصوبہ پر کام کر رہے ہیں جس کو سینچری ڈیل کہا جا رہاہے ۔ یہ ڈیل پیش ہونے سے پہلے ہی متعدد ممالک کی جانب سے مسترد ہو چکی ہے ۔ خود پاکستان اس ڈیل کو مسترد کر چکا ہے ۔ پاکستانی سیاست کی مایہ ناز شخصیت اور حکومت کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق محترمہ شیریں مزاری فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کی القدس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں اس صدی کی ڈیل کو مسترد کرنے کا اعلان کر چکی ہیں ۔ تاہم اس ڈیل کی کوئی حیثیت نہیں ۔
امریکی صدر کے پس پردہ عزائم میں یقینا غرب ایشیاء میں موجود قدرتی وسائل بالخصوص تیل کی دولت پر قبضہ جمانے پر بھی نظر ہے اور اس طرح کے نہ جانے کتنے ہی ناپاک عزائم امریکی صدر اور صہیونیوں کے دل و دماغ میں موجود ہیں لیکن میں یہاں پر صرف یہی کہتا ہوں کہ امریکی صدر اور ان کے سب حواری اپنے ان ناپاک عزائم و خوابوں کو اپنے ساتھ قبروں میں لے جائیں گے اور انہیں کبھی بھی کامیابی نہیں ملے گی ۔
خیبر: صدی کی ڈیل کے مسئلے کے حوالے سے عرب اتحاد کا کیا کردار ہے یا ہو سکتا ہے؟
۔ مسئلہ فلسطین سے متعلق آہستہ آہستہ تمام عرب ممالک کا کردار اب صرف ایک پٹھو کا رہ چکا ہے ۔ وہ زمانہ نہیں رہا کہ جب عرب فلسطین کی آزادی کی خاطر میدان جنگ میں اتر آئے تھے ۔ بہر حال اس مرتبہ امریکی صدر کے سامنے تسلم خم ہونے والے عرب ممالک کا مفاد یا کردار جو صدی کی ڈیل سے منسلک ہے وہ زیادہ دیر پا اور پائیدار نظر نہیں آتا ہے ۔
امریکہ نے اس ڈیل میں غرب ایشیاء کے عرب ممالک کو کہ جن کو ساتھ ملایا گیا ہے انکے لئے معاشی پیکج دینے کی بات کی ہے ۔ یہ بھی خبر ہے کہ بہت سے عرب بادشاہوں اور مستقبل میں بادشاہ کی کرسی پر براجمان ہونے والے خواہش مند شہزادوں کو پچاس پچاس برس کی بادشاہت کے وعدے بھی کئے گئے اور امریکہ کی ضمانت دی گئی ہے کہ امریکہ ان کے بادشاہی نظام میں خلل یا رکاوٹ نہیں ڈالے گا ۔ تاہم اقتدار کے نشہ اور لالچ میں اندھے عرب حکمرانوں کا صدی کی ڈیل کے عنوان سے کردار یہی ہو سکتا ہے کہ وہ چند ایک مسلمان ممالک کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے کہ صدی کی ڈیل کے تحت مسئلہ فلسطین کے سودے میں ان کو بھی شامل کریں ۔ جیسا کہ خود پاکستان جیسے کئی مسلمان ممالک کے اندر سعودی عرب کا کافی عزت و احترام صرف اس لئے پایا جاتاہے کہ اس سرزمین پر مکہ مکرمہ اور روضۃ الرسول (ص) ہیں ، حالانکہ ان کا تعلق اس سرزمین کے حکمران خاندان سے کسی طور نہیں لیکن پھر بھی اس احترام اور عزت کو استعمال کرتے ہوئے سعودی حکمران کوشش کر رہے ہیں کہ متعدد مسلم ممالک کے عوام اور حکومتوں کو امریکی فیصلوں اور بالخصوص صدی کی ڈیل پر قائل کر لیں ۔
خیبر: پاکستان کے سیاسی حکمرانوں یا نانفوذ مذہبی شخصیتوں کا اس کے حوالے سے کیا کردار ہے؟
جیسا کہ پہلے بھی ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ محترمہ شیریں مزاری جو حکومت کی اعلیٰ سطح کی وزیر ہیں صدی کی ڈیل پر بیان دے چکی ہیں اور مسترد کرتے ہوئے واضح طور پر کہہ چکی ہیں کہ پاکستان کبھی بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرے گا اور تسلیم نہیں کیا جائے گا ۔ اسی طرح ابھی حالیہ رمضان المبارک میں فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے تحت کراچی، اسلام آباد اور لاہور سمیت کوئٹہ اور دیگر شہروں میں منعقد ہونے والی القدس کانفرنسوں میں پاکستان کی اعلیٰ سطح کی قیادت بشمول سینیٹر مشاہد حسین، سینیٹر فرحت اللہ بابر، چیئرمین کشمیر کمیٹی سید فخر امام، سینیٹر جنرل (ر) عبد القیوم، سینیٹر افراسیاب خٹک، سینیٹر سراج الحق، سابق گورنر سندھ محمد ذبیر، سینئر سیاست دان فاروق ستار اور دیگر رہنما صدی کی ڈیل کے تاثر اور چند ایک ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی معلومات کے مطابق صدی کی ڈیل کے اعلامیہ کو مسترد کر چکے ہیں ۔ لہذا یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کے عوام فلسطین کے بارے میں بہت حساس ہیں اور امریکہ سمیت کسی بھی ملک کو اس بات کا حق دار نہیں سمجھتے کہ وہ فلسطینیوں کے مستقبل اور حقوق کا فیصلہ کرے ۔ آخر امریکہ کون ہوتا ہے کہ جو فلسطین کے عوام اور ان کے مستقبل کا فیصلہ کرے؟
اس کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ صہیونی لابی پاکستان میں بھرپور طریقوں سے سرمایہ گزاری کرنے میں مصروف عمل ہے اور اس عنوان سے صحافیوں ،اینکر پرسنز، سیاست دانوں اور سابق جرنیلوں کو خصوصی ٹاسک دئیے گئے ہیں جس کا مقصد پاکستان میں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے خلاف پائے جانے والے نظریات اور بابائے قوم قائد اعظم محمدعلی جناح کے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے بنیادی و ٹھوس موقف کو کمزور کیا جائے ۔
خیبر: فلسطین فاؤنڈیشن کی اپنی حیثیت کے مطابق صدی کی ڈیل کے ردعمل میں کیا سرگرمیاں انجام پائی ہیں یا انجام دینے کا منصوبہ رکھتی ہے۔
۔ فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان چونکہ ایک غیر سرکاری تنظیم ہے اور محدود وسائل کے ساتھ پاکستان میں سرگرمیاں انجام دے رہی ہے ۔ لیکن یہ اعزاز بھی صرف فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کو ہی حاصل ہے کہ پاکستان میں سب سے پہلے ایک سال قبل ہی صدی کی ڈیل سے متعلق موضوعات پر بحث کا آغاز کیا اور صدر پاکستان سمیت وزیر اعظم پاکستان اور معروف صحافیوں کو خطوط لکھے گئے جس کا یقینا اثر موجود ہے اور آج حکومتی اراکین کی زبانوں سے بھی صدی کی ڈیل کو مسترد کئے جانے کے دو ٹوک بیانات سامنے آ رہے ہیں ۔ اس عنوان سے سیمینارز اور پریس کانفرنسوں کے ذریعہ مسئلہ کو اجاگر کیا گیا ہے جبکہ اخبارات میں صدی کی ڈیل سے متعلق خصوصی کالم کی سیریز بھی شائع کروائی گئی ہے اور مستقبل میں بھی اسی طرح کی سرگرمیاں جاری رہیں گی تا حد یہ کہ صدی کی ڈیل باقاعدہ طور پر ناکامی اور رسوائی کا شکار ہو جائے ۔
خیبر: بہت بہت شکریہ آپ کا، آپ نے ہمیں ٹائم دیا اور ہمارے ساتھ گفتگو کی، خداوند عالم فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کو آپ کی سربراہی میں دن دگنی رات چگنی ترقی دے، اور قبلہ اول کے تئیں خدمات انجام دینے کی مزید توفیق دے اور آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، انشاء اللہ قبلہ اول کی آزادی تک آپ کی جد و جہد سدا جاری رہے۔