عدلیہ کے ترجمان نے ۱۰ جون کو ستائیسویں پرس کانفرنس میں اس جاسوس کے لیے سزائے موت کا اعلان کیا تھا اور یہ خبر دی تھی کہ محمود موسوی مجد موساد اور سی آئی اے انٹیلی جنس سروس سے امریکی ڈالر وصول کرنے کے بدلے میں سپاہ قدس کے خصوصی شعبوں کی جاسوسی کرتا اور ان کی معلومات امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس کو فراہم کرتا رہا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی عدلیہ سے متعلقہ نیوز ایجنسی نے آج بروز پیر مورخہ ۲۰ جولائی ۲۰۲۰ کو اعلان کیا ہے کہ سی آئی اے اور موساد کے جاسوس ’محمود موسوی مجد‘ کو آج صبح سزائے موت دے دی گئی ہے۔
عدلیہ کے ترجمان نے ۱۰ جون کو ستائیسویں پرس کانفرنس میں اس جاسوس کے لیے سزائے موت کا اعلان کیا تھا اور یہ خبر دی تھی کہ محمود موسوی مجد موساد اور سی آئی اے انٹیلی جنس سروس سے امریکی ڈالر وصول کرنے کے بدلے میں سپاہ قدس کے خصوصی شعبوں کی جاسوسی کرتا اور ان کی معلومات امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس کو فراہم کرتا رہا ہے۔
مجد کون تھا؟
یہ ۱۰ جون کا واقعہ ہے جب عدلیہ کے ترجمان نے اپنی 27 ویں پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ’محمود موسوی مجد‘ جس نے موساد اور سی آئی اے کے ساتھ جڑ کر امریکی ڈالروں کے بدلے میں ایران کی مسلح افواج مخصوصا سپاہ قدس کی خصوصی معلومات غیر ملکی ایجنسیوں کو فراہم کی ہیں کو سزائے موت دیے جانے کا حکم جاری کیا جاتا ہے۔
عدلیہ کے ترجمان غلام حسین اسماعیلی نے اس شخص پر الزام عائد کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس شخص نے سردار شہید قاسم سلیمانی اور دیگر فوجی کمانڈروں کے محل سکونت میں آمد و رفت کی بنا پر ان کی خفیہ معلومات بھی غیر ملکی ایجنسیوں کو فراہم کی ہیں۔
یہ جاسوس جس کو سزائے موت سنا دی گئی تھی لگ بھگ دو دہائی قبل اپنے تاجر باپ کے ہمراہ شام منتقل ہو جاتا ہے اور وہاں کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتا ہے، عربی اور انگریزی زبان پر مسلط ہونے کے سبب وہ ایران سے وابستہ کمپنیوں میں مترجم کی حیثیت سے کام کرنے لگتا ہے۔ شام میں جنگ شروع ہوتے ہی اس کے اہل خانہ ایران واپس لوٹ جاتے ہیں جبکہ وہ شام میں ہی ٹک جاتا ہے۔
عربی زبان پر تسلط اور شام کے جغرافیہ سے واقفیت اس کو ایرانی مشاورتی دستوں سے قریب لاتی ہے اور نتیجہ میں ادلب سے لاذقیہ تک کے علاقے میں مصروف کار فوجی دستوں میں کسی بڑی پوسٹ پر فائز ہو جاتا ہے، مجد سپاہ کا رکن نہیں تھا لیکن مترجم ہونے کی آڑ میں سپاہ کے اعلیٰ عہدیداروں کے قریب ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
موسوی مجد مغربی ایشیاء میں سی آئی اے کے آفیسر کی کال کے ذریعے اس جاسوسی سروس سے جڑا تھا۔ یہ کال جو سیکیورٹی سروسز کی رینج میں آگئی اور اس کے ذریعے سیکیورٹی سروس نے موسوی مجد کی شناخت کر لی اور اس بات کا باعث بنی کہ موسوی مجد سیکیورٹی فورسز کی نگرانی میں آ گیا۔ اس کے مشکوک طرز عمل نے سیکیورٹی فورسز کو اس کے بارے میں مزید تحقیقات کرنے پر مجبور کر دیا۔ تحقیقات کے بعد یہ ثابت ہو گیا کہ موسوی مجد سی آئی اے اور موساد کے نٹ ورک سے رابطے میں ہے۔
موسوی مجد امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس کو شام میں موجود ایرانی مشاورتی دستوں، ہتھیاروں، مواصلاتی نظام، کمانڈروں کی آمد و رفت اور ان کے محل سکونت یہاں تک کہ سردار سلیمانی کی آمد و رفت اور اہم مراکز و خفیہ کوڈ ورڈ سے بھی آگاہ کرتا تھا۔ اور حالیہ ایام میں اس کی کوشش تھی کہ وہ سعودی انٹیلی جنس سے بھی ناطہ جوڑ لے۔
آخر کار اسلامی جمہوریہ ایران کی انٹیلی جنس نے اسے گرفتار کر لیا اور ۱۰ جون کو اس کی سزائے موت کا فیصلہ دے دیا اور آج ۲۰ جولائی ۲۰۲۰ کو وطن سے غداری کے جرم میں موسوی مجد کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔