کتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانس نے کہا ہے کہ کورونا وائرس انسانوں کی جانب سے دنیا کو بگاڑنے اور قدرتی چیزوں کی قدر نہ کرنے پر قدرت کا رد عمل ہوسکتا ہے۔پوپ فرانسس نے کورونا وائرس کے حوالے سے مذکورہ باتیں ایک ایسے وقت میں کہیں ہیں جب وہ خود بھی وبا سے محفوظ رہنے کے لیے ویٹی کن سٹی تک محدود ہیں اور انہوں نے تمام سرگرمیاں بھی معطل کر رکھی ہیں۔
پوپ فرانسس کو سانس لینے میں تکلیف سمیت سردی کی شکایات بھی ہوگئی تھیں اور گزشتہ ماہ مارچ میں ان کا کورونا ٹیسٹ بھی کیا گیا تھا مگر خوش قمستی سے وہ وبا سے محفوظ رہے تھے۔
83 سالہ پوپ فرانسس کا ایک پھیپھڑا نہیں ہے، کئی سال قبل بیماری کی وجہ سے ان کا پھیپھڑا نکال دیا گیا تھا جس وجہ سے انہیں سردی کی شکایت سمیت بعض اوقات سانس لینے میں تکلیف کے علاوہ بھی دیگر شکایات رہتی ہیں۔
کورونا وائرس کی احتیاطی تدابیر کے پیش نظر انہوں نے ویٹی کن سٹی میں ہونے والی تمام سرگرمیاں معطل کردی ہیں جب کہ انہوں نے پام سنڈے کی تقریبات بھی محدود پیمانے پر کی تھیں۔
پہلی بار کسی وبا کی وجہ سے ویٹی کن سٹی میں پام سنڈے کی تقریبات کے لیے پوپ فرانسس نے خالی میدان میں دعا کی تھی، کیوں کہ وبا کورونا وائرس کی وجہ سے ویٹی کن میں لوگوں کو جمع ہونے کی اجازت نہیں۔
کورونا وائرس کے دنیا بھر میں تیزی سے پھیلاؤ پر پوپ فرانسس پہلے بھی بات کر چکے ہیں تاہم اب انہوں نے مسیحیت کی پرچار کرنے والے برطانیہ کے میگزین دی ٹیبلیٹ کو خصوصی انٹرویو دیا ہے۔
مذکورہ انٹرویو میں پوپ فرانسس نے میگزین کی جانب سے پوچھے گئے 6 سوالوں کے جوابات دیے ہیں جو انہیں کچھ ہفتے قبل ہی بھجوائے گئے تھے۔
دی ٹیبلیٹ میگزین کے مطابق پوپ فرانسس کو بھجوائے گئے سوالوں کے جواب میں انہوں نے اسپینش زبان میں میگزین کو آڈیو بھجوایا جس کا ترجمہ کرکے انہیں اب شائع کردیا گیا۔
پوپ فرانسس سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے اسباب، وبا کے ویٹی کن سٹی سمیت چرچز کی عبادات پر پڑنے والے اثرات سمیت وبا کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات سمیت وبا کے نمودار ہونے سے متعلق سوالات پوچھے گئے جن پر پوپ فرانسس نے بظاہر تفصیلی جوابات دیے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق پوپ فرانسس نے مسیحیت کی پرچار کرنے والے میگزین کو دیے گئے انٹرویو میں واضح کیا کہ ان کے مطابق انسانوں کی جانب سے دنیا کو گاڑنے اور قدرتی چیزوں کی قدر نہ کرنے پر قدرت کا رد عمل ہوسکتا ہے۔
پوپ فرانسس کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ کورونا وائرس قدرت کا غصہ ہے یا نہیں مگر حالات سے لگتا ہے کہ فطرت کا رد عمل ہے، کیوں کہ ہم انسانوں نے اس دنیا کا ماحول ہی برباد کردیا ہے۔
پوپ فرانسس کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا دنیا کو پیغام دے رہی ہے کہ استعمال کے لیے چیزوں کی تیاری اور ان کے استعمال کو ضرورت کے مطابق کم سے کم کیا جائے اور فطرت کے ماحول کو بچایا جائے۔
مسیحیوں کے روحانی پیشوا کا کہنا تھا کہ ہمیں فطرت کے قانون اور دنیا کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
پوپ فرانسس نے کورونا وائرس سے قبل دنیا میں آنے والی چھوٹی مصیبتوں کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ انسانوں نے ان مصیبتوں اور مسائل کو بھی بھلا دیا اور اب ان پر کوئی بات تک نہیں کرتا۔
انہوں نے مثال دی کہ کچھ ماہ قبل ہی آسٹریلیا کے جنگلات میں لگی آگ کو دیکھنے کے باوجود ہم اسے بھول گئے اور اب اس پر کوئی بات ہی نہیں کرتا۔
اسی طرح انہوں نے 18 ماہ قبل نارتھ پول میں پھنس جانی والی کشتی کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ اب ان حادثات کو ہم بھول گئے اور اب کوئی ان پر بات تک نہیں کرتا۔
ایک سوال کے جواب میں پوپ فرانسس کا کہنا تھا کہ حکومتوں کی جانب سے دنیا بھر میں غریب افراد کا اچھے طریقے سے خیال نہیں کیا جا رہا ہے اور انہوں نے اس ضمن میں امریکی شہر لاس اینجلس کی مثال دی کہ وہاں بے گھر افراد کو کورونا سے بچانے کے لیے گاڑیوں کی پارکنگ میں قرنطینہ کیا جا رہا ہے جب کہ وہاں پر پرتعیش ہوٹل خالی پڑے ہیں۔
مسیحیوں کے روحانی پیشوا کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کی حکومتیں بے گھر افراد کو پرتعیش ہوٹلوں میں قرنطینہ کر سکتی ہیں۔ایک اور سوال کے جواب میں پوپ فرانسس نے کورونا وائرس سے بچنے کے لیے لوگوں کو قرنطینہ کرنے کے عمل کو مسیحیوں کے مقدس دنوں لینٹ یعنی ایسٹر کے درمیان والی مدت سے تشبیح بھی دی تاہم انہوں نے کورونا وائرس کے قرنطینہ اور مسیحیوں کی مدت لینٹ کو واضح طور پر ایک جیسا نہیں کہا۔
خیال رہے کہ کیتھولک مسیحیوں کے عقیدے کے مطابق لینٹ چالیس دنوں کی اس مدت کو کہتے ہیں جو ایسٹر سے قبل شروع ہوتی ہے اور ان 40 دنوں میں مسیحی روزے رکھتے ہیں، عبادات کرتے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور ایسٹر کا دن اپریل کے آخر تک منایا جاتا ہے۔
اس سال ایسٹر کا دن اپریل کے وسط میں منایا جا ئے گا تاہم اس بار کورونا وائرس کی وجہ سے ایسٹر کے موقع پر چرچز میں محدود عبادات ہوں گی۔