دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤمیں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کا اجلاس جس کی صدارت بورڈ کے صدر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے کی۔
اجلاس میں ملک بھر سے مجلس عاملہ کے ارکان نے شرکت کی۔ اس موقع پر بہت سے پہلوؤں پر تفصیل سے گفتگو ہوئی جن میں یونی فارم سول کوڈ اور ملک کے مختلف عدالتوں میں چل رہے مسلم پرسنل لا سے متعلق مقدمات کا جائزہ لیا گیا۔
اس اجلاس میں شرکاء نے درج ذیل تجاویز منظورکیں
یہ اجلاس محسوس کرتا ہے کہ ملک میں نفرت کا زہر پھیلا یا جارہا ہے اور اس کو سیاسی لڑائی کا ہتھیار بنایا جارہا ہے۔ یہ اس ملک کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ جنگ آزادی کے مجاہدین، دستور کے مرتبین اور ملک کے اولین معماروں نے اس ملک کے لیے جو راستہ اختیار کیا تھا، یہ اس کے بالکل خلاف ہے۔
یہاں صدیوں سے مختلف مذاہب، قبائل، زبانوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والوں نے ملک کی خدمت کی ہے اور اس کو آگے بڑھانے میں یک ساں کردار اداکیا ہے۔ اگر یہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ ختم ہوگیا تو ملک کا اتحاد پارہ پارہ ہوجائے گا۔
اس لیے یہ اجلاس حکومت سے،محب وطن شہریوں سے، قانون دانوں، سیاسی رہ نماؤں اور میڈیا کے لوگوں سے درد مندانہ اپیل کرتا ہے کہ وہ نفرت کی اس آگ کو پوری قوت کے ساتھ بجھانے کی کوشش کریں اور اس کو ہوا دینے سے بچیں، ورنہ یہ آگ آتش فشاں بن جائے گی اور ملک کی تہذیب، اس کی نیک نامی، اس کی ترقی اور اس کی اخلاقی وجاہت سب کو جلاکر رکھ دے گی۔
قانون انسانی سماج کو مہذب بناتا ہے، ظالموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے، مظلوموں کو انصاف فراہم کرتا ہے اور ان کے لیے حصول انصاف کی امید ہوتا ہے۔ لاقانونیت سماج کو انارکی میں مبتلا کردیتی ہے۔
ا س لیے حکومت ہو یا عوام، اکثریت ہو یا اقلیت، برسر اقتدار گروہ ہو یا اپوزیشن، سرمایہ دار ہو یا غریب اور مزدور، سب کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں، لیکن اس وقت بدقسمتی سے ملک میں لاقانونیت کا ماحول بن رہا ہے، ماب لنچنگ ہو رہی ہے، ملزم پر کیس ثابت ہونے سے پہلے اس کو سزا دینے کی کوشش کی جارہی ہے، جو مکانات دسیوں سال سے بنے ہوئے ہیں، جو حکومت اور انتظامیہ کی نظروں کے سامنے بنے ہیں اور جن سے قانونی واجبات بھی وصول کیے جاتے رہے ہیں، ان کو بلڈوزر کے ذریعے لمحوں میں زمیں بوس کردیا جاتا ہے۔
احتجاج کا دستوری حق استعمال کرنے والے اور پر امن طور پر اپنا موقف پیش کرنے والوں کو سنگین دفعات کے تحت گرفتار کرلیا جاتا ہے اور جرم ثابت کیے بغیر مدتوں ان کو جیل میں رکھا جاتا ہے۔
یہ سب لاقانونیت کی بدترین شکلیں ہیں اور لاقانونیت عوام کی طرف سے ہو یا حکومت کی طرف، بہر حال قابل مذمت ہے۔ اس کو روکنا حکومت کا اور تمام باشندگان ملک کا فریضہ ہے۔
ملک کے دستور کی بنیاد مساوات، انصاف اور آزادی پر ہے۔ ان اصولوں کو قائم رکھنا حکومت کی بھی ذمہ داری ہے اور عدلیہ کی بھی۔ اس لیے عدلیہ سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ کم زور طبقات اور اقلیتوں کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں کا جائزہ لے اور اپنا فریضہ منصبی ادا کرے۔ عدلیہ عوام کے لیے امید کی آخری کرن ہے۔ اگر یہ بھی مدہم پڑ جائے تو اس سے بڑھ کر اور کوئی بدقسمتی نہیں ہوسکتی ہے۔
ملک کے دستور میں شامل بنیادی حقوق میں ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دی گئی ہے، اس میں پرسنل لازبھی شامل ہیں۔ حکومت سے اپیل ہے کہ وہ تمام شہریوں کی مذہبی آزادی کا احترام کرے۔ پرسنل لا کے ذیل میں مختلف گروہوں کے جو تشخصات ہیں، ان کو ختم کرکے کامن سول کوڈ کا نفاذ ایک غیر جمہوری عمل ہوگا۔ یہ اتنے بڑے متنوع اور مختلف مذاہب اور تہذیب کے حامل ملک کے لیے موزوں بھی نہیں ہے اور مفید بھی نہیں ہے۔
اگر اس کو پارلی منٹ میں اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زبردستی نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے ملک کا اتحاد متاثر ہوگا، ملک کی ترقی میں رکاوٹ پید اہوگی اور اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
اس لیے بورڈ کا یہ اجلاس جو مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے نمایندوں پرمشتمل ہے، حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس ارادے سے بازآجائے اور ملک کے جو حقیقی مسائل ہیں ان پر توجہ کرے۔
عبادت گاہوں سے متعلق ۱۹۹۱ء کا قانون خود حکومت کا بنایا ہوا قانون ہے، جسے پارلیمنٹ نے پاس کیاہے، اس کو قائم رکھنا حکومت کا فریضہ ہے اور اسی میں ملک کا مفاد ہے، ورنہ پورے ملک میں مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی شروع ہوجائے گی اور یہ ملک کے لیے بہت ہی بدقسمتی کی بات ہوگی۔ اس لیے حکومت اپنی ذمہ د اری اداکرے اور فرقہ پرست عناصر کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے۔
اوقاف دینی وانسانی مقاصد کے لیے مسلمانوں کی جانب سے دی جانے والی املاک ہیں، جن کو شرعاً وقانوناً ان کے مقررہ مقاصد ہی پر خرچ کرنا ضروری ہے۔ حکومت یا عوام کی طرف سے وقف کی جائداد پر قابض ہوجانا کھلے طور پر غصب ہے۔
خواہ یہ کسی مسلمان کی طرف سے ہو یا غیر مسلم کی طرف سے، یا ملک کے کسی شہری کی طرف سے ہو یا حکومت کی طرف سے، بہر حال یہ ایک غیر قانونی عمل ہے۔
اس لیے بورڈ اوقاف کے سلسلے میں حکومت کے بعض نمایندوں کی طرف سے جاری کردہ ان بیانات پر انتہائی تشویش کااظہار کرتا ہے، جن میں مسلمانوں کو ان کے اوقاف سے محروم کرنے کا جذبہ ظاہر ہوتا ہے اور حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی قدم سے باز رہے اور مسلمانوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ اپنے اوقاف کی حفاظت کے لیے مقامی طور پر بھر پور کوشش کریں۔
افتادہ آراضی کی احاطہ بندی کرائیں۔ اوقاف کو ان کے مقررہ مقاصد، نیز جہاں ضرورت ہو وہاں ملت کے نونہالوں کے تعلیمی مقاصد کے لیے ان کو استعمال کریں۔
بورڈ کا یہ اجلاس مسلمانوں کو متوجہ کرتا ہے کہ مسلمان ہونے کا مطلب اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے حوالے کرنا ہے۔ اس لیے بہ حیثیت مسلمان ہم سب کا فریضہ ہے کہ ہم شریعت کے قانون پر عمل کریں۔ عورتوں کے ساتھ انصاف، بوڑھوں کے ساتھ حسن سلوک، شادی بیاہ میں فضول خرچی سے پر ہیز اور سادگی کا لحاظ رکھیں۔ اپنے معاملات کو اپنے قاضیوں، مذہبی رہ نماؤں کے سامنے رکھ کر اپنے مسائل حل کریں۔
شریعت نے جن باتوں کو حرام اور گناہ قرار دیا ہے ان سے بچیں، چاہے قانون میں اس کی ممانعت نہ ہو، جیسے نشہ، نکاح کے بغیر مرد وعورت کا جسمانی تعلق، سود، ہم جنسی، شوہریا بیوی سے بے جاطریقہ پر پیسہ وصول کرنا، طلاق کے بعد بیوی کو اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کرنا۔ یہ ساری باتیں کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتیں اور نہ ملک کا قانون ہمیں ان پر مجبور کرتا ہے۔
چاہے قانون کسی خلاف شریعت بات کی اجازت دیتا ہو اور اس میں کسی شخص کا فائدہ ہو، لیکن ایک مسلمان کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے۔
بورڈ عام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ نکاح کے لیے بورڈ کے مرتب کردہ نکاح نامے کا استعمال کریں، جس میں ز وجین کے حقوق کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور جس میں عاقدین کے لیے اس بات کی گنجایش رکھی گئی ہے کہ وہ اپنے باہمی نزاعات کو حل کرنے کے لیے دارالقضاء یا محکمہ شرعیہ کو ثالث بنائیں۔ اگر سماج اس نکاح نامے سے فائدہ اٹھائے اور اس میں شامل ثالثی پر عاقدین دستخط کردیں تو اس سے بڑا فائدہ ہوگا۔ طلاق کے واقعات کم ہوں گے۔ عورتوں کے حقوق کی حفاظت ہوگی۔ اگر ان کے درمیان کوئی نزاع پید اہوگئی تو آسانی کے ساتھ کم وقت اور کم خرچ میں ان کے اختلافات حل ہوسکیں گے۔
مذہب اور عقیدے کا تعلق انسان کے یقین اور ضمیر سے ہے۔ اس لیے کسی مذہب کو اختیار کرنے کا حق ایک فطری حق ہے۔ اسی بنا پر ہمارے دستور میں اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے اور ہر شخص کو کسی مذہب کو اختیار کرنے یا مذہب کی تبلیغ کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ البتہ اس کے لیے زور زبردستی اور مالی تحریص ایک نامناسب بات ہے۔ لیکن حالیہ عرصے میں مختلف ریاستوں میں ایسے قوانین لائے گئے اور لائے جانے کی کوشش کی جارہی ہے، جن کا مقصد ملک کے شہریوں کو سرے سے اس حق سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔ یہ بات کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ تبلیغ مذہب کے لیے استعمال کیے جانے والے غیر قانونی طریقوں کو ضرور روکے، لیکن جو لوگ اپنی مرضی سے ایک مذہب کو چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرنا چاہتے ہیں یا پر امن طریقے پر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
ملک کے تعلیمی نظام کو دستورکی روح سے ہم آہنگ ہونا چاہئے،ماضی میں بڑی حد تک اس پر عمل ہوتا رہا ہے،نصاب تعلیم میں کسی ایک مذہب یا کسی ایک کلچر کوبڑھا کر بتانے سے احتیاط کی جاتی رہی ہے،اس طرح سوشل سائنس میں مختلف مذاہب کے پیشواؤں کا تعارف نصاب میں شامل رہا ہے اورتاریخ میں ہردور کی تاریخ کو نمائندگی دی گئی ہے لیکن حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی میں یہ باتیں مفقود ہیں، یہ بات مسلمانوں اوراقلیتوں کے لئے ناقابل قبول ہے اس لئے حکومت سے پرزوراپیل کی جاتی ہے کہ وہ ملک کے نظام تعلیم کو دستور کے مزاج کے مطابق بنائے جس میں تمام مذاہب، تہذیبوں کا احترام ملحوظ ہو اورانصاف کے ساتھ ملک کی تاریخ پیش کی جائے۔
بورڈ مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ دینی اوراخلاقی ماحول کے ساتھ ہرسطح کے تعلیمی ادارے اورلڑکیوں کے لئے خصوصی درس گاہیں قائم کرنے پر توجہ کریں تاکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کے تقاضے پورے ہوں، لڑکیاں محفوظ ماحول میں تعلیم حاصل کریں اورطلبہ وطالبات انسانی جذبے کے تحت ملک وقوم کی خدمت کرنے کے لائق بنیں۔
بنیادی دینی تعلیم کے مکاتب بچوں کوصحیح راستے پر قائم رکھنے کے لئے بڑی اہمیت کے حامل ہیں، ہرمسجد اورہرمحلے میں اس کا انتظام ہونا چاہئے اورکوشش کرنا چاہئے کہ کوئی مسلمان بچہ یا بچی بنیادی دینی تعلیم سے محروم نہ رہ جائے۔ اس لیے مسلمانوں سے خاص طورپر اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اس پر بھرپور توجہ کریں تاکہ ہماری نئی نسل کا رشتہ دین واخلاق سے قائم رہ سکے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ نے آسام کی حکومت کے ذریعہ کم عمری کے شادیوں کے تعلق سے مسلم خاندانوں کی گرفتاری کا جو سلسلہ شروع کیا وہ انتہائی قابل تشویش ہے۔ بورڈ حکومت آسام سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں پنجاب وہریانہ ہائی کورٹ جو معاملہ زیر بحث ہے اس میں فیصلہ آنے تک ان پر کوئی اقدام نہ کرے۔ اس سلسلے میں بورڈ اپنی لیگل کمیٹی کو مجاز کرتا ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کرکے اسلام کا موقف بھر پورطریقے پر پیش کرے۔
میٹنگ میں بورڈ کے صدر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی، نائب صدور مولانا ارشد مدنی، مولانا فخر الدین اشرف،پروفیسر سید علی نقوی، جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، مولانا فضل الرحیم مجددی، مولانا محمود مدنی، مولا نا سجاد نعمانی، مولانا مصطفی رفاعی جیلانی، بیرسٹراسد الدین اویسی، مولانا خالد رشید فرنگی محلی، مولانا ولی فیصل رحمانی، ڈاکٹرقاسم رسول الیاس، کمال فاروقی، یوسف حاتم مچھالہ ایڈوکیٹ، مولانا سید بلال حسنی ندوی، مولانا عتیق احمد بستوی، شمشاد احمد ایڈوکیٹ، طاہر حکیم ایڈوکیٹ، ڈاکٹر مونسہ بشریٰ خصوصی طور پر شریک تھے۔