دہلی۔ یکم اگست: مولانا حسن علی راجانی نے کہا کہ پاکستان افغانستان اور اسی طرح افریقہ میں کئی ممالک میں شیعوں پر ظلم و زیادتی ہوتی ہیں لیکن اسپر سنی علماءتو کیا کوئی شیعہ عالم بھی اپنی آواز احتجاج اس لئے نہیں اٹھاتا کہ ایران سر کار کی جانب سے ایک جمعہ کے خطبہ کے عوض ہندوستانی ایک سو پچیس روپیہ جو مایانا پانچ سو روپیہ بنتاہے جسیے شہریہ کہا جاتا ہے وہ کہیں بند نہ ہو جائے۔
مولانا حسن علی راجانی
جب کہ میرے اوپر بھی یہ الزام ہیکہ راجانی پوری دنیا کہ شیعوں کےحق میں اسلئے بولتا ہیکہ راجانی کا ماہانہ پانچ سو روپیہ بند کر دیا ہے۔ مولانا راجانی نے لہا کہ ملت اسلامیہ کے کچھ افراد فلسطین پر ہونے والے مظالم کے خلاف مسلسل آواز بلند کر رہے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر فلسطین کے لئے احتجاج کرتے ہیں، ٹویٹس کرتے ہیں، اور یہاں تک کہ ان کو عزاداری سید الشہدا علیہ السلام کا جز قرار دیتے ہیں۔
بے شک ایک قابل تعریف عمل ہے کہ وہ عالمی سطح پر ہونے والے ظلم کے خلاف بولتے ہیں اور مظلوموں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے ہیں۔تاہم، افسوسناک بات یہ ہے کہ جب بات اپنے مومن بھائیوں کی ہوتی ہے تو وہی افراد اور وہی علماء خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ چاہے افریقہ اور افغانستان کا مسئلہ ہو یا خیرپور اور پاراچنار کا مسئلہ ہو، جو کہ شیعہ علماء میں ایک سے ایک ہستی ہیں، حالیہ دنوں میں ہونے والی جنوسائڈ پر ملت شیعہ کے علماء کی زبانوں پر کرفیو نافذ ہے۔
یہ خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے کہ جب بات اپنے بھائیوں کی ہو تو ان کے دل میں وہ درد کیوں نہیں اُٹھتا جو دیگر مظلوموں کے لئے اُٹھتا ہے؟ وہ فقط اسلئے کے پوری دنیا کے ان مظلوم شیعوں کی جانب سے کسی کو ماہانہ ایک پانچ سو روپیہ شہریہ نہیں ملتا ہیں، اگر واقعی شیعہ علماء اور افراد کو اپنے شیعہ بھائیوں سے محبت ہوتی، تو وہ پاراچنار میں ہونے والے مظالم کے خلاف بھی اسی جوش و جذبے سے بولتے۔
لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیعوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف بولنے پر انہیں کوئی ذاتی مفاد نظر نہیں آتا، یا پھر انہیں اس پر بولنے سے روکا جاتا ہے، شیعہ قوم کے کچھ افراد اور علماء فلسطین پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے میں پیش پیش ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس موضوع پر بولنے پر انہیں مختلف ذرائع سے وظیفہ اور فنڈنگ ملتی ہے۔ بین الاقوامی تنظیمیں، خیراتی ادارے، اور سیاسی گروہ فلسطین کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لئے فنڈز فراہم کرتے ہیں، جس سے بولنے والوں کو مالی مدد حاصل ہوتی ہے۔
اس کے برعکس، جب شیعہ امامیہ پر مظالم کی بات آتی ہے، خاص طور پر پاراچنار جیسے علاقوں میں، تو اس پر بولنے سے کوئی مالی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ، اس موضوع پر بات کرنے کے لئے نہ تو کوئی فنڈنگ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی مخصوص وظیفہ۔ اس کے نتیجے میں، بہت سے لوگ اور علماء اس مسئلے پر خاموشی اختیار کرتے ہیں کیونکہ اس میں انہیں کوئی ذاتی یا مالی فائدہ نظر نہیں آتا ہیں، یہ صورتحال نہایت افسوسناک ہے کیونکہ انصاف کے تقاضے صرف مالی فوائد پر منحصر نہیں ہونے چاہئیں۔
اگر واقعی مظلوموں کے لئے دل میں درد ہو تو مالی فوائد کی پروا کیے بغیر ان کے لئے آواز بلند کی جانی چاہیے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہماری اخلاقی اور دینی ذمہ داری ہے، چاہے اس میں کوئی مالی فائدہ ہو یا نہ ہو۔ مظلوم چاہے جہاں بھی ہو، ان کے حقوق کی حمایت کرنا ہمارا فرض ہے۔
یہ دہرا معیار شیعوں کے اجتماعی شعور اور اخوت کے جذبے پر سوالیہ نشان ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم انصاف اور مظلومیت کے معاملے میں متعین اور غیر جانبدار رہیں، چاہے ظلم دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو رہا ہو، اور مظلوم کوئی بھی ہو۔ اپنے مومن بھائیوں کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے، اور اس میں کسی بھی قسم کی غفلت یا خاموشی ناقابل معافی ہے۔