دنیا بھر کے مختلف ممالک کی جانب سے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے خلاف جدوجہد جاری ہے جس کے ساتھ ہی اس سے ہونے والی بیماری کے خلاف ویکسین کی تیاری کی کوششیں بھی جاری ہیں۔
خیال رہے کہ چین کا شہر ووہان دنیا کا وہ پہلا شہر تھا جہاں کورونا وائرس کی وجہ سے سب سے پہلے یعنی 23 جنوری 2020 کو انتظامیہ نے لاک ڈاؤن نافذ کیا تھا۔
ابتدائی طور پر چینی حکام نے شہر کو جزوی طور پر بند کیا تھا تاہم بعد ازاں وائرس کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے شہر کو مکمل طور پر لاک ڈاؤن کیا گیا تھا۔
ووہان سے ہی کورونا وائرس کا آغاز دسمبر 2019 کے وسط میں ہوا تھا تاہم بعد ازاں چینی ماہرین نے ایک رپورٹ میں اعتراف کیا تھا کہ کورونا کے مریض نومبر 2019 میں ہی سامنے آئے تھے مگر ان کے مرض کی تشخیص نہیں ہو پائی تھی اور مرض کو پہچاننے میں ماہرین کو کچھ وقت لگا تھا۔
کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ سے چینی حکام نے ابتدائی طور پر جنوری 2020 کے آغاز میں ہی ووہان کو جزوری طور پر بند کرتے ہوئے شہریوں کو گھروں تک محدود کردیا تھا تاہم بعد ازاں شہر میں مکمل لاک ڈاؤن کردیا گیا تھا۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہی چینی حکام کورونا وائرس پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے اور پہلی بار 19 مارچ 2020 کو ووہان کے شہر سے کوئی بھی کورونا کا نیا کیس سامنے نہیں آیا تھا جس کے بعد 23 مارچ کو وہاں سخت لاک ڈاؤن ختم کردیا گیا تھا۔
ووہان میں جاری اس سخت لاک ڈاؤن کے دوران چین کے 2 فلم ساز وبا سے بچاؤ کا حفاظتی لباس پہنے ووہان کے ان ہسپتالوں میں عکس بندی میں مصروف تھے جہاں مریضوں کا بے پناہ رش تھا۔
وہاں انہوں نے ایسی دل دہلا دینے والی ویڈیوز کی عکس بندی کی جن میں وبا کے خوف میں مبتلا شہریوں کو ہسپتالوں کے دروازے پیٹتے، طبی عملے کو تھکن سے بے حال ہوتے اور کورونا سے متاثرہ افراد کے رشتہ داروں کو اپنے پیاروں کو خدا حافظ کہنے کے لیے حکام کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے دیکھا گیا۔
اب ان تمام ویڈیوز اور تصاویر کو نیویارک میں مقیم ڈائریکٹر ہاؤ وو ایڈٹ نے ایڈٹ کیا اور فلم کی شکل میں ٹورنٹو فلم فیسٹیول میں پیش کیا۔
فرسٹ پوسٹ میں شائع اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق رواں ہفتے کے آغاز میں ٹورنٹو فلم فیسٹیول میں ’76 ڈیز’ کے عنوان سے بنائی گئی اس ٖفلم کو نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا۔
اس فلم کا نام چین کے شہر اور کورونا وائرس کے مرکز ووہان میں 76 تک جاری رہنے والے لاک ڈاؤن پر رکھا گیا جو وبا کے اصلی مرکز سے تھیٹر میں پیش کی جانے والی پہلی بڑی دستاویزی فلم ہے۔
سینما کی طرز پر بند جگہوں سے خوف کے عالم میں بنی اس فلم میں آواز یا انٹرویوز کا استعمال نہیں کیا گیا بلکہ اس کا انحصار ایک نئی اور خوفناک حقیقت سے نمٹتے ڈاکٹرز اور مریضوں کی فوٹیجز پر ہے۔
ہاؤ وو نے پہلے ان دونوں فلم سازوں سے رابطہ کیا تھا جن میں سے ایک نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنی چاہی تھی کیونکہ وہ نئے چینی سال کے موقع پر چین گئے تھے جہاں انہوں نے ووہان میں نافذ سخت ترین لاک ڈاؤن دیکھا تھا۔