ممبئی: ہندوستانی سنیما کے بانی دھونڈی راج گووند پھالکے کو ان کے انتقال کے 81 سال بعد ایک تاخیر سے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی زندگی پر مبنی پہلی بالی ووڈ بایوپک 2026 میں ریلیز کی جائے گی، جس کا عنوان دادا صاحب پھالکے ہوگا۔ اس فلم کی ہدایت کاری راجکمار ہیرانی کریں گے اور ٹائٹل رول میں عامر خان نظر آئیں گے، دادا صاحب پھالکے 115 سال قبل ہندوستان کی پہلی فیچر فلم ’’راجہ ہریش چندر‘‘ کے پروڈیوسر ڈائریکٹر کے طور پر سنیما کی تاریخ رقم کر چکے ہیں۔
چندر شیکھر پسالکر پھالکے، دادا صاحب پھالکے کے پوتے، کے مطابق یہ کہانی ہندوکش بھاردواج اور ان کے بیٹے اویشکھر بھاردواج نے چار سال کی تحقیقی محنت کے بعد تحریر کی ہے، جس کے دوران انہوں نے دادا صاحب کی زندگی کے کئی گوشے دریافت کیے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی بھاردواج خاندان سے متعدد نشستیں ہوئیں، جہاں انہوں نے اپنی والدہ ورندا پسالکر پھالکے سے سنی گئی کئی نایاب باتیں شیئر کیں۔ جب ہیرانی کو اس پروجیکٹ کے بارے میں علم ہوا تو وہ فوراً ہدایت کاری کے لیے راضی ہو گئے۔
بھاردواج باپ بیٹے نے بتایا کہ انہوں نے دادا صاحب پھالکے کی شخصیت اور کارناموں کو سمجھنے کے لیے کئی عوامی و نجی لائبریریوں کی خاک چھانی، پرانے میڈیا رپورٹس، کتابیں، اور بالی ووڈ سے وابستہ بزرگوں سے بات کی، اور ان کے خاندان سے بھی معلومات حاصل کیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس دور کے قدیم کیمروں پر تجربات کیے تاکہ سمجھا جا سکے کہ دادا صاحب نے محدود وسائل کے ساتھ کیسے کام کیا۔
بھاردواجوں نے پھالکے کی بنائی گئی ‘ٹرک فوٹوگرافی’ جیسی تکنیکوں کو دوبارہ تخلیق کیا اور بعد میں پسالکر-پھالکے خاندان اور دیگر ورثا سے تمام پہلوؤں کی تصدیق کروائی۔ ان کے بقول، جب عامر خان نے یہ کہانی سنی تو وہ جذباتی ہو گئے اور اس تاریخی پروجیکٹ کا حصہ بننے کا فیصلہ کر لیا۔فلم کی کہانی ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے پس منظر میں ترتیب دی گئی ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک عام فنکار دھونڈی راج کس طرح رکاوٹوں پر قابو پاتے ہوئے ملک کو دنیا کی سب سے بڑی دیسی فلمی صنعت کا تحفہ دیتا ہے۔ اس وقت فلم کی پری پروڈکشن جاری ہے، جبکہ ایک ہالی ووڈ اسٹوڈیو فلم کے دورانیے کے لیے AI پر مبنی ڈیزائن تیار کر رہا ہے۔ اصل شوٹنگ اکتوبر 2025 میں شروع ہوگی اور 2026 میں ریلیز کی جائے گی۔
راجکمار ہیرانی، ابھیجت جوشی اور دیگر تخلیق کار اس بایوپک کو دادا صاحب پھالکے کو ایک ‘خراج تحسین’ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ پسالکر-پھالکے خاندان کا کہنا ہے کہ اس پروجیکٹ میں شامل ہر ماہر کی لگن سے امید کی جا رہی ہے کہ یہ فلم آسکر میں جگہ بنائے گی۔ناسک کے ترمبکیشور میں پیدا ہونے والے دادا صاحب پھالکے کی اصل کنیت ‘بھٹ’ تھی۔ انہوں نے ممبئی کے سر جے جے اسکول آف آرٹس اور بڑودہ کے کلا بھون میں تعلیم حاصل کی۔ چالیس سال کی عمر میں انہوں نے “راجہ ہریش چندر” جیسی پہلی مکمل طویل فلم 3 مئی 1913 کو ریلیز کی، جو ان کی محنت اور جذبے کا نتیجہ تھی۔
ان کے آباؤ اجداد، ‘بھٹ’، پونے کے پیشوا دربار کو کیلے کے پتوں کی فراہمی کا کام کرتے تھے، جسے ‘پھالکے’ کہا جاتا تھا، اور یہی لقب ان کے ساتھ وابستہ ہو گیا۔ دادا صاحب نے بعد میں “موہنی بھسماسور” (1913)، “ستیوان ساوتری” (1914)، اور “لنکا دھن” (1917) جیسی فلمیں بنائیں، جس میں انہوں نے ’ڈبل‘ کردار کا تصور بھی متعارف کروایا۔
چندر شیکھر پسالکر-پھالکے اور ان کی اہلیہ مردولا کے مطابق دادا صاحب ہمیشہ اپنی اہلیہ سرسوتی پھالکے کو اپنی کامیابی کا کریڈٹ دیتے تھے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے 75 فلمیں بنائیں، جن میں صرف ایک ’ٹاکی‘ تھی، ’گنگاوترن‘ (1937)۔ وہ فلم سازی کے بانی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک وژنری بھی تھے، جنہوں نے اس فن میں کئی نئے رجحانات متعارف کروائے۔پسالکر-پھالکے جوڑا دادا صاحب کو ایک “حادثاتی فلم ساز” قرار دیتا ہے، جنہوں نے ڈرائنگ، پینٹنگ، فوٹوگرافی، تھیٹر، ماڈل سازی، پرنٹنگ اور کارل ہرٹز جیسے مغربی جادوگروں سے متاثر ہو کر کئی فنون میں مہارت حاصل کی، مگر فلموں سے ان کی محبت نے انہیں امر کر دیا۔پھالکے خاندان کی جانب سے دادا صاحب پھالکے کو بعد از مرگ ’بھارت رتن‘ دینے کی اپیل کی جا رہی ہے، تاہم پسالکر جوڑے کا کہنا ہے کہ اب تک حکومتوں کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں آیا۔
یو این آئی اےاےاے