أربعينية الإمام الحسين (ع)
حوزہ/ اربعین کربلا والوں کی یادگار ہے اور کربلا اسلام کے تحفظ کی ضمانت جس کا خوف ہر اسلام دشمن کے دل پر ہمیشہ کیلئے بیٹھ چکا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک سے ہندو، مسلم، سیک، عیسائی جوق در جوق کربلا آرہے ہیں۔
پوری دنیا سے لاکھوں عاشقان امام حسین ؑ کربلا میں حاضر ہوتے ہیں اور مکتب امام حسین ؑ سے درس فداکاری ، وفاداری اور دینداری حاصل کرتے ہیں حضرت امام حسین ؑکا کردار اور آپ ؑکی طرز فکر ،وہ آفاقی پیغام ہے جو ہر دور کے مظلوم اور مجبور انسانوں کو درس عمل اور ولولہ شوق عطا کرتا رہے گا۔
سانحہ کربلا میں حسینی ؑطرز فکر اور یزیدی طرز فکر ہمارے سامنے آتی ہے۔ طرز فکر کے یہ دونوں رخ ہر دور میں سامنے آسکتے ہیں۔ ظلم کا ہر نظام اور ہر فعل یزیدیت ہے جبکہ علم و معرفت خدا ترسی، انصاف اور انسان دوستی حسینیؑ طرز فکر ہے۔
اربعین حسینی کے موقع پر نجف سے کربلا تک پیدل واک جسے ’’مشی ‘‘ بھی کہا جاتا ہے خاص اہمیت کی حامل ہے نجف سے کربلا کا فاصلہ 85کلومیٹر کے لگ بھگ ہے ۔یہ طویل فاصلہ کئی کروڑ لوگ پیدل طے کرتے ہیں یوں اس پیدل واک کو کرہ ارض کی سب سے بڑی واک کا درجہ بھی حاصل ہے اور اسی طرح نجف سے کربلا تک جاری مسلسل دستر خوان کو دنیا کے سب سے برے دستر خوان کا درجہ بھی حاصل ہے جو 85کلومیٹر پر محیط ہے اربعین حسینی ان مظلوم اسیروں کی فتح کی یادگار ہے ۔اربعین کربلا والوں کی یادگار ہے اور کربلا اسلام کے تحفظ کی ضمانت جس کا خوف ہر اسلام دشمن کے دل پر ہمیشہ کیلئے بیٹھ چکا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک سے ہندو، مسلم ، سیک ، عیسائی جوق در جوق کربلا آرہے ہیں ۔جوش ملیح آبادی نے کیا خوب کہاتھا:
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہرر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
علامہ اقبال کی اردو اور فارسی شاعری میں امام حسینؑ اور کربلا ایک ایسا استعارہ ہے جو ظلم و ستم کے خلاف استقامت اور اسلام کے حقیقی رہبر کی نشاندہی کرتا ہے۔ وہ کربلا اور امام عالی مقام کو حق و وحدت کا دبستان اور حق و باطل کا میزان قرار دیتے ہیں ان کی حق شناس آنکھ کربلا کے واقعہ کو ایک تاریخی واقعہ کے طور پر نہیں دیکھتی بلکہ وہ امام حسینؑ کی صدا کے احتجاج اور ان کی لازوال قربانی کو اسلام کی بقا اور حیات قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
وہ مشرقی پکار ہو یا مغربی صدا / مظلومیت کے ساز پہ دونوں ہیں ہم نوا
محور بنا ہے ایک جنوب و شمال کا / تفریق رنگ و نسل پہ غالب ہے کربلا
تسکین روح ،سایہ آہ و بکا میں ہے / ہر صاحب شعور کا دل کربلا میں ہے
شاعر کسی خیال کا ہو یا کوئی ادیب / واعظ کسی دیار کا ہو یا کوئی خطیب
تاریخ تولتا ہے جہاں کوئی خوش نصیب / اس طرح بات کرتا ہے احساس کا نقیب
دیکھو تو سلسلہ ادب مشرقین کا / دنیا کی ہر زبان پہ ہے قبضہ حسینؑ کا۔
اربعین کی تاریخ :
اربعین عربی زبان میں چالیس کو کہا جاتا ہے اور 20 صفر کو امام حسینؑ کی شہادت کے چالیسویں روز کی مناسبت سے اربعین کہا جاتا ہے۔ اس دن کے اہم واقعات میں ایک یہ ہے کہ جابر بن عبداللہ انصاری اسی دن امام حسین علیہ السلام کی قبر اطہر پر پہنچنے تھے۔ اسی طرح بعض منابع کے مطابق جابر کے علاوہ اسیران کربلا بھی اسی دن شام سے رہا ہو کر امام حسینؑ کی زیارت کے لئے کربلا پہنچے تھے۔
۱۔ جابر بن عبداللہ انصاری کی کربلا میں حاضری :
پیغمبر اسلامؐ کے مشہور صحابی جابر بن عبداللہ انصاری کو امام حسین علیہ السلام کا پہلا زائر ہونے کا اعزار حاصل ہے۔ مشہور تاریخی اسناد کے مطابق جابر نے عطیہ عوفی کے ہمراہ 20 صفر سنہ 61 ہجری قمری کو کربلا آکر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی۔
جابر جو اس وقت نابینا ہو چکے تھے نہر فرات میں غسل کیا اپنے آپ کو خوشبو سے معطر کیا اور آہستہ آہستہ امام حسینؑ کی قبر مطہر کی جانب روانہ ہوا۔ عطیہ بن عوفی کی رہنمائی میں اپنا ہاتھ قبر مطہر پر رکھا اور بے ہوش ہو گیا، ہوش میں آنے کے بعد تین بار یا حسینؑ کہا اس کے بعد کہا “حَبیبٌ لا یجیبُ حَبیبَهُ” اس کے بعد امام اور دیگر شہداء کی زیارت کی۔
۲۔ اسیران کربلا کی شام سے واپسی :
بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ اسرائے کربلا اسی سال یعنی سنہ 61 ہجری کو ہی شام سے رہا ہو کر مدینہ جانے سے پہلے عراق گئے اور واقعہ کربلا کے 40 دن بعد یعنی 20 صفر کو کربلا کی سرزمین پر پہنچ گئے۔ جب یہ قافلہ کربلا پہنچے تو جابر بن عبداللہ انصاری اور بنی ہاشم کے بعض افراد کو وہاں پایا پھر امام حسینؑ کی زیارت کے بعد وہاں سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ کتاب لہوف میں سید ابن طاووس نے اس نظریے کی تصریح کی ہے۔
ان کے مقابلے میں بعض علماء کا خیال ہے کہ شام اور عراق کے درمیانی فاصلے کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اسیران کربلا عاشورا کے 40 دن بعد دوبارہ کربلا واپس آ گئے ہوں کیوں کہ کوفہ سے شام پھر وہاں سے دوبارہ کربلا لوٹ آنا اس مختصر مدت میں امکان پذیر نہیں ہے۔ محدث نوری اور شیخ عباس قمی؛ اسی نظریے کے حامی ہیں۔ اس کے علاوہ اس بات کے اثبات میں کوئی معتبر دلیل بھی موجود نہیں ہے۔
علماء کا ایک گروہ اصل واقعے کو قبول کرتے ہوئے اسیران کربلا کا شام سے مدینہ واپسی کی تاریخ کو اسی سال صفر کے اواخر یا ربیع الاول کے اوائل بتاتے ہیں جبکہ بعض علماء اس واقعے کو اگلے سال صفر کی 20 تاریخ کو رونما ہونے کے قائل ہیں۔
۳۔ شہداء کربلا کے سروں کا بدن سے ملحق ہونا
مشہور قول کی بنا پر امام حسینؑ اور شہداء کربلا کے سروں کو عاشورا کے دن ان کے بدن سے جدا کیا گیا تھا اور اسیران کربلا کے ساتھ شہداء کے سروں کو بھی شام یزید کے دربار میں لے گیا تھا جو اسیران کربلا کی رہائی کے ساتھ اربعین کے دن شہداء کے بدنوں سے ملحق ہو گئے تھے۔ یہ قول بہت سارے شیعہ اور اہل سنت علماء اور مورخین کا مشترکہ قول ہے۔ شیعہ علماء میں سے شیخ صدوق، سید مرتضی، فتال نیشابوری،ابن نما حلی، سید ابن طاووس، شیخ بہایی اور علامہ مجلسی نے اس قول کو نقل کئے ہیں۔
شیخ صدوق اور ان کے بعد فتال نیشابوری اس بارے میں لکھتے ہیں: “امام سجادؑ اہل بیتؑ کے مستورات کے ساتھ جب شام سے رہا ہوئے تو اپنے ساتھ امام حسینؑ اور دیگر شہداء کے سروں کو بھی کربلا لے آئے تھے”۔ سید مرتضی اس بارے میں لکھتے ہیں: “روایت میں ہے کہ امام حسینؑ کا سر اقدس آپ کے بدن مطہر کے ساتھ کربلا میں مددفون ہیں۔
پیام کربلا:
کربلا کا اہم ترین پیام شہادت، وفاداری ،فداکاری ، دینداری ،ولایت مداری ، آزادگی ،عدلت ،بصیرت،وحدت ، شرافت ، عزت ، ایثار اور قربانی ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے فقط انسانیت کی بقا کی خاطر کربلا کے تپتے ریگزار میں اپنا بھرا گھر حتیٰ کہ اپنا ششماہی فرزند شہزادہ علی اصغرّ بھی قربان کردیا۔بصیرت ، وفاداری ، فدا کاری، قربانی وغیرہ یہ وہ اعلیٰ انسانی صفات ہیں کہ اگر کسی معاشرہ یا قوم میں پیدا ہو جائیں تو وہ قوم یا معاشرہ کبھی بھی تاریخ کی اندھیری کوٹھریوں میں دفن نہیں ہوسکتا اور یہی وہ صفات ہیں جن کو امام حسین علیہ السلام نے 61ھ میں بشریت کا خاصہ بنا دیا اور آج چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی واقعہ کربلا کی بازگشت چہار جانب سنائی دے رہی ہے۔جاءالحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقاً ۔ بیاں سر شہادت کی اگر تفسیر ہو جائے/ مسلمانوں کا قبلہ روضہ شبیرؑ جائے۔
اربعین حسینی اور کربلا، زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک حادثہ کی صورت سے نکل کر ایک مکتب میں تبدیل ہوگیا ،ایسا مکتب جس میں انسانوں کی تربیت کی جاتی ہے۔ قیام امام حسین علیہ السلام نے صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ دنیا کے بہت سے مفکرین نے آپ کے اس قیام کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور اس کو مظلوموں کی نجات کیلئے نمونہ عمل قرار دیا ہے ، وہ لوگ آپ کے مکتب کو ظلم ستیزی اور عزت و شرافت کی زندگی کا مکتب قرار دیتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ آج کی دنیا میں جبکہ بے رحم ظالم اور ستمگر ، مظلوم مسلمانوں کا خون بہانے کے لئے تلے ہوئے ہیں تو مظلوم قوموں کو انقلاب عاشورا سے سبق حاصل کرتے ہوئے کھڑے ہوجانا چاہئے اور دنیا سے ان کے شر کو ختم کردینا چاہئے ۔