ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ دو دہائیوں میں مقامی فلم سازوں کی طرف سے ’پاکستانی سینما کی بحالی’ کا نعرہ مسلسل بلند کیا جا رہا ہے، مگر یہ بحالی ہے کہ ہو ہی نہیں رہی۔
اب عالم یہ ہے، جہاں پورا سال اِکا دُکا پاکستانی فلمیں ریلیز ہوئیں، وہاں عید کے موقع پر بیک وقت 5 پاکستانی فلمیں نمائش کے لیے پیش کردی گئیں۔ ان فلم سازوں نے یہ فلمیں ناجانے کب سے اپنی بغل میں دبا کر رکھی ہوئی تھیں۔ مگر اب ان کو اسکرین ٹائم باقاعدہ نہ ملنے کی شکایت ہوگئی ہے اور اس پر واویلا مچا رہے ہیں، مصداق چور مچائے شور۔
اس تناظر میں پاکستان پروڈیوسر ایسوسی ایشن اور کراچی آرٹس کونسل کے اشتراک سے ہنگامی پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور ایک فرنگی فلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی گئی۔ اس سے پہلے یہی سب کچھ کرکے انڈین فلمیں بھی بند کروا چکے ہیں، جن کی وجہ سے کم از کم پاکستانی تھیٹرز آباد رہتے تھے، اور ان سے سیکڑوں لوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔
اب یہ چند ایک فلم ساز چاہتے ہیں کہ ہولی وڈ کی فلمیں بھی اس ملک میں آنا بند ہوجائیں، اور صرف ان مقامی فلم سازوں کی ڈراما نما فلموں کو دیکھنے عوام کا تانتا سینما تھیٹرز میں بندھا رہے اور سب جانتے ہیں کہ یہ دیوانے کا خواب ہے کیونکہ فلم بین کو سینما تھیٹرز تک لانے کے لیے معیاری کام کرنا پہلی شرط ہے۔
آئیے ذرا شروع سے جائزہ لیتے ہیں کہ ان مسائل کو یہاں تک پہنچانے میں کس کس نے اپنا حصہ ڈالا اور لگے ہاتھوں، اس عید پر ان 5 شاہکار فلموں کا اختصار سے جائزہ بھی لے لیتے ہیں۔
رواں برس 2022ء میں عید الفطر کے موقع پر 4 اردو اور ایک پنجابی فلم نمائش کے لیے پیش ہوئی۔ پنجابی اور پشتو زبان میں چند ایک اور فلمیں بھی نمائش کے لیے پیش ہوئیں، مگر وہ مین اسٹریم کے سینماؤں تک نہیں آئیں، اس لیے ان کو اس بحث سے باہر رکھتے ہیں۔
سید نور کی نئی فلم ’تیرے باجرے دی راکھی’ ایک پرانی گھسی پٹی کہانی پر مبنی فلم ہے، جس میں ٹک ٹاکر اسٹار جنت مرزا کے فلمی کیریئر کی شروعات کا فیتا کاٹا گیا ہے، بس اب اسی سے اندازہ کرلیجیے کہ ہمارے فلم سازوں کا معیار فلمیں بناتے وقت ڈراموں سے ہوتا ہوا، ٹک ٹاک تک آگیا ہے۔
اسی موقع پر ریلیز ہونے والی 4 اردو فلموں میں یاسر نواز کی ’چکر’، وجاہت رؤف کی ’پردے میں رہنے دو’، عدنان صدیقی کی ’دم مستم’، حسن ضیا اور جمیل بیگ کی ‘گھبرانا نہیں ہے’ شامل ہیں۔