کربلا کی شیر دل خاتون نے بارہا اپنے خطبوں میں یزید ابن معاویہ ابن ابوسفیان اور ابن زیاد کو ذلیل و خوار کیا اور ان کی کھل کر مذمت کی اور قران و اسلام سے ان کی دیرینہ دشمنیوں اور عداوتوں کو یاد دلایا۔
تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ کربلا کی شیر دل خاتون نے بارہا اپنے خطبوں میں یزید ابن معاویہ ابن ابوسفیان اور ابن زیاد کو ذلیل و خوار کیا اور ان کی کھل کر مذمت کی اور قران و اسلام سے ان کی دیرینہ دشمنیوں اور عداوتوں کو یاد دلایا۔
حضرت زینب سلام اللہ علیھا علی (ع) و فاطمہ (س ) کی بیٹی اور پیغمبر اکرم ص کی نواسی ہیں۔ آپ نہایت ہی بافضیلت خاتون تھیں۔ اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ امام علی زین العابدین ع آپ کو عالمہ غیر معلمہ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ آپ کے کمالات صرف علم تک ہی محدود نہیں بلکہ زندگی کے مختلف حصوں میں آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو منظر عام پر آئے۔ مشہور روایت کے مطابق حضرت زینب ( س ) کی ولادت ۵ جمادی الاول سن ۶ ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔
جب رسول خدا (ص) حضرت زینب (س ) کی ولادت کے موقع پر علی (ع ) و فاطمہ (س)کے گھر تشریف لائے تو آپ نے نومولود بچی کو اپنی آغوش میں لیا۔ اس کو پیار کیا اور سینے سے لگایا۔ اس دوران علی ع و فاطمہ س نے دیکھا کہ رسول خدا ص اونچی آواز سے گریہ کر رہے ہیں۔ جناب فاطمہ س نے آپ ص سے رونے کی وجہ پوچھی تو آپ ص نے فرمایا: “بیٹی، میری اور تمہاری وفات کے بعد اس پر بہت زیادہ مصیبتیں آئیں گی”
حضرت زینب (س) کا بچپن فضیلتوں کے ایسے پاکیزہ ماحول میں گزرا جو اپنی تمام جہتوں سے کمالات میں گھرا ہوا تھا جس کی طفولیت پر نبوت و امامت کا سایہ ہر وقت موجود تھا اور اس پر ہر سمت نورانی اقدار محیط تھیں رسول اسلام (ص) نے انہیں اپنی روحانی عنایتوں سے نوازا اور اپنے اخلاق کریمہ سے زینب (س) کی فکری تربیت کی بنیادیں مضبوط و مستحکم کیں ۔
امام سجاد اپنی پھوپھی کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اے پھوپھی اماں، آپ الحمد للہ ایسی خاتون ہیں کہ جسکو کسی نے پڑھایا نہیں ہے، اور آپ ایسی عاقل خاتون ہیں کہ کسی نے آپ کو عقل و شعور نہیں دیا۔
فضیلتوں اور کرامتوں سے معمور گھر میں رسول اسلام اور علی و فاطمہ کی مانند عظیم ہستیوں کے دامن میں زندگی بسر کرنے والی حضرت زینب کا وجود تاریخ بشریت کا ایک غیر معمولی کردار بن گیا ہے کیونکہ امام کے الفاظ میں اس عالمہ غیر معلمہ اور فہیمہ غیر مفہمہ نے اپنے بے مثل ہوش و ذکاوت سے کام لیکر، عصمتی ماحول سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور الہی علوم و معارف کے آفتاب و ماہتاب سے علم و معرفت کی کرنیں سمیٹ کر خود اخلاق و کمالات بکھیرتا چراغ بن گئیں ۔
حضرت زینب (س) کی طبیعت میں عبادت و پرہیزگاری کا عنصر نہایت غالب دکھائی دیتا ہے۔ تمام غم و آلام پوری خندہ پیشانی سے سہتی رہیں، مگر عبادات خداوند میں کوئی کمی نہیں آئی۔
امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں: میری پھوپھی نے تمام سفر و اسیری کے دوران کبھی نماز قضا نہ کی اور وقت رخصت آخر امام حسین(ع) نے بھی اپنی بہن زینب سے فرمایا تھا کہ: اے بہن! مجھے اپنی نمازِ شب میں فراموش نہ کرنا۔
حضرت زینب نے واقعہ کربلا میں اپنی بے مثال شرکت کے ذریعے تاریخ بشریت میں حق کی سر بلندی کے لڑے جانے والی سب سے عظیم جنگ اور جہاد و سرفروشی کے سب سے بڑے معرکہ کربلا کے انقلاب کو رہتی دنیا کے لئے جاوداں بنا دیا۔ جناب زینب کی قربانی کا بڑا حصہ میدان کربلا میں نواسۂ رسول امام حسین کی شہادت کے بعد اہلبیت رسول کی اسیری اور کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں تشہیر سے تعلق رکھتا ہے۔
جناب زینب نے اپنے وقت کے ظالم و سفاک ترین افراد کے سامنے پوری دلیری کے ساتھ اسیری کی پروا کیے بغیر مظلوموں کے حقوق کا دفاع کیا ہے اور اسلام و قرآن کی حقانیت کا پرچم بلند کیا۔ جن لوگوں نے نواسہ رسول کو ایک ویران و غیر آباد صحرا میں قتل کر کے، حقائق کو پلٹنے اور اپنے حق میں الٹا کر کے پیش کرنے کی جرات کی تھی سر دربار ان بہیمانہ جرائم کو برملا کر کے کوفہ و شام کے بے حس عوام کی آنکھوں پر پڑے ہوئے غفلت و بے شرمی کے پردے چاک کیے ہیں ۔
حضرت زینب (س) اپنے بھائی امام حسین (ع) کی شہادت کے تقریبا ” ڈیڑھ سال بعد 15 رجب المرجب 62 ہجری کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئیں ۔ آپ کا روضہ اقدس شام کے دار الحکومت دمشق میں ہے جسے اس دور کے یزیدیوں نے شہید کرنے کی بھر پور کوشش کی ، لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام کے سرفروشوں نے آگے بڑھ کر اس دور کے یزیدیوں کو حضرت زینب (س) کے روضہ کی طرف بڑھنے سےر وک دیا اور وہابی دہشت گردوں کو نبی کریم کے روضہم بارک کی بے حرمتی کرنے کی اجازت نہیں دی، جبکہ اس سے قبل سعودی عرب کے وہابی دہشت گردوں نے جنت البقیع میں اولاد رسول اکرم (ص) ، ازواج رسول (ص) اور اصحاب رسول (ص) کے روضوں کو شہید کردیا تھا۔