نیویارک: اسرائیل اور فلسطین کی جنگ چھڑنے کے چند منٹ بعد ہی 5 سالہ بچے برا کو غزہ کے علاقے جبلیہ میں قتل کیا گیا، عین اسی لمحے غزہ کے ہی دوسرے علاقے بیت حنون میں 4 کزنز( 2 سالہ یزان المصری، 6 سالہ مروان المصری، 10 سالہ ریحاف المصری اور 11 سالہ ابراہم المصری) کو بھی قتل کرکے برا الغربلی کے ہمراہ جنت کی طرف روانہ کردیا گیا۔
انسانیت کا یہ ننگا ناچ صرف ان 5 بچوں تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اسرائیلی فوج نے وحشت کا یہ کھیل 11 دن تک جاری رکھا۔ غیر جانب دارانہ ابتدائی رپورٹس کے مطابق ان 11 دنوں میں 18 سال سے کم عمر کے کم از کم 67 بچوں کو شہید کیا گیا۔
اسرائیلی ظلم نے اِن بچوں کو ان کی معصوم خواہشات کے ساتھ منوں مٹی تلے گہری نیند سلا دیا۔ فلسطینی بچوں کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کی ہر اس انسان نے مذمت کی جس کے دل میں انسانیت کی تھوڑی سی بھی رمق باقی تھی۔
اسرائیلی مظالم کی ہول ناکی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کے قریبی اتحادی ملک امریکا کے صف اول اخبار ’’ نیویارک ٹائمز‘‘ نے اپنا صفحہ اول بھی ان معصوم شہیدوں کے نام کردیا۔
نیویارک ٹائمز نے صفحہ اول پر لکھا کہ ’’ حالیہ تصادم میں 18 سال سے کم عمر 67 بچے غزہ میں اور دو اسرائیل میں ہلاک ہوگئے، یہ صرف بچے تھے، ان میں سے کوئی ڈاکٹر، فنکار اور کوئی لیڈر بننا چاہتا تھا‘‘۔
’ وہ صرف بچے تھے‘ کے عنوان سے شایع ہونے والی اس رپورٹ میں شہید ہونے والے 67 بچوں کی تفصیلات تمام تر جُزئیات کے ساتھ لکھی گئی ہیں۔
12 سالہ محمود طلبی اپنی کلاس کا ہونہار بچہ میکنیکل انجینئر بننا چاہتا تھا لیکن اس سے قبل ہی شہادت کے درجے پر فائز ہوگیا۔ 7 سالہ مریم ابو خطاب جس کی عمر گڑیوں سے کھیلنے کی تھی، وہ خود اپنی گڑیا کے ساتھ ہی ابدی نیند سو گئی۔ ہر تصویر اسرائیلی سفاکی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔