آنکھیں بند کرکے مٹھی دبائے محمد کلاب کی عمر بس چند دن ہے جن کی زندگی کے سفر کا آغاز غزہ میں جاری اسرائیل-حماس جنگ کے دوران ہوا۔ غزہ کے جنوبی شہر رفح میں قائم اقوام متحدہ کے اسکول میں پناہ گزین فدوا کلاب نے آہ بھرتے ہوئے کہا کہ ان حالات میں کسی کو بھی پیدا نہیں ہونا چاہیے۔
فدوا کلاب کے سات بچے ہیں مگر ان کے مطابق محمد کلاب کی پیدائش ان کی زندگی کا مشکل ترین تجربہ تھا۔
خبر ایجنسی ’اے ایف پی‘ نے دیگر ماؤں کی طرح نومولود کی والدہ فدوا کلاب سے بات کی اور انہوں نے کہاکہ ان کا چھوٹا بیٹا ماں کا دودھ نہیں پی رہا۔
انہوں نے بتایا کہ میں ٹھیک سے نہیں کھا پا رہی ہوں، فدوا کلاب نے اس بات پر زور دیا کہ انہوں نے کامیابی سے اپنے دیگر بچوں کو دودھ پلایا تھا۔
دودھ پلانے والی ماؤں کو روزانہ کم از کم 3 لیٹر پانی پینے اور اچھی خوراک لینے کی تجویز دی جاتی ہے لیکن غزہ میں صاف پانی کا حصول دن بہ دن مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
غزہ کی حکمران حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد پہلے سے ہی غربت اور بندش کی شکار فلسطینی سرزمین کو اب تک کی بدترین جنگ میں دھکیل دیا گیا ہے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ تقریباً 1400 افراد ہلاک اور 240 کو اغوا کیا گیا، جس میں ایک 10 ماہ کے کم سن سمیت 35 بچے شامل ہیں۔
حماس کے حملے کے بعد شروع ہونے والی اس جنگ میں اسرائیل نے مسلسل بمباری، زمینی حملہ اور غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے۔
غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق اب تک 11 ہزار 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق غزہ کے 36 ہسپتالوں میں سے تقریباً دو تہائی ہسپتال، جہاں پہلے ہی جنگ کے زخمیوں کی بڑی تعداد موجود ہے، جنریٹرز کو درکار ایندھن کی کمی کے باعث سہولیات کی فراہمی سے محروم ہوگئے ہیں۔
غزہ شہر کے سب سے بڑے ہسپتال الشفا، جو کہ مریضوں اور پناہ گزینوں سے بھرا ہوا ہے، اب ایک شدید شہری جنگی زون کے اندر ہے، ہسپتال کے ڈائریکٹر کے مطابق متعدد میتیں کمپلیکس کے اندر اجتماعی قبر میں دفنایا دی گئی ہیں۔
غزہ پٹی کے نائب وزیر صحت یوسف ابوریش نے بتایا کہ جاں بحق ہونے والوں میں ہسپتال کے معذور نوزائیدہ یونٹ میں داخل، قبل از وقت پیدا ہونے والے 7 بچے بھی شامل ہیں۔
’میں بچے سے محروم ہو سکتی ہوں‘
غزہ میں ان گنت مائیں بدترین خوف کا شکار ہیں، ان میں فدوا کلاب بھی شامل ہیں، جن کا کہنا تھا کہ وہ خود کو اپنے بچوں کی حفاظت میں بے بس اور ناکام محسوس کرتی ہیں۔
کمبل میں لپٹے اپنے بچے کو جھولا جھلاتے ہوئے فدوا کلاب نے کہا کہ انہیں بچے کا فارمولا دودھ اور نیپیز ڈھونڈنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑی۔
37 سالہ دوسری خاتون نجوا سلیم کا کہنا تھا کہ ان کے نومود کو یرقان ہے، ایک ایسی بیماری جس میں آنکھیں اور جلد زرد پڑ جاتی ہیں، یہ بیماری دودھ کی کم مقدار لینے اور پانی کی کمی سے بدتر ہوسکتی ہے۔
ذہنی تناؤ کا خطرہ کم کرنے کے لیے نجوا سلیم اپنے بچے کو باہر لے جا سکتی ہیں مگر انہوں نے کہا کہ وہ کچرے کے ڈھیر اور بمباری کی وجہ سے ایسا کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے اسکول کی کلاس میں موجود نجوا سلیم مزید 70 لوگوں کے ساتھ مقیم ہیں، ماں پریشان ہے کیونکہ ان کے سی سیکشن سے آنے والے نشان میں انفیکشن ہوگیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حالانکہ انہوں نے ہسپتال میں بچے کو جنم دیا تھا مگر ایک ہی رات میں انہیں ہسپتال سے جانے کو کہہ دیا گیا کیونکہ ان کے پاس دیکھ بھال کے لیے بہت زیادہ زخمی موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ باہر مسلسل بمباری سے بڑی تعداد میں جمع دھول سانس لینے میں دشواری کا باعث بن رہی ہے بالخصوص یہ شیرخوار بچوں کے لیے خطرناک ہے۔
آٹھ ماہ کی حاملہ ایک اور خاتون ام ابراہیم عالیان کو اس وقت سے کھانسی کی شکایت ہے جب سے انہوں نے بمباری کی وجہ سے اپنا محلہ چھوڑا تھا۔
اپنے ہاتھوں کو پیٹ اور چہرے کے درمیان گھبراہٹ سے گھماتے ہوئے ان کا کہنا تھا یہ شدید کھانسی کے وقت سے پہلے ان کو ہونے والے کانٹریکشن کا باعث ہوگی جس کا ان کو سامنا کرنا پڑا تھا۔
روتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں بہت خوف زدہ ہوں، میں بس اپنے بچے کو اپنے بانہوں میں تھامنا چاہتی ہوں، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں کسی بھی لمحے اپنے بچے کو کھو دوں گی۔
انتہائی خراب حالات
فلسطینی علاقوں کے لیے اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے اعلیٰ عہدیدار ڈومینک ایلن نے کہا کہ غزہ میں حاملہ خواتین کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں، کوئی مقام محفوظ نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ 24 لاکھ کی آبادی والے غزہ میں 50 ہزار سے زیادہ تعداد حاملہ خواتین کی ہے اور روزانہ اوسطاً 180 بچے پیدا ہوتے ہیں۔
ڈومینک ایلن نے کہا کہ ہمارے اندازے کے مطابق پیدا ہونے والے ان بچوں میں سے کم از کم 15 فیصد میں پیچیدگیاں ہوں گی، جن کو بنیادی دیکھ بھال کی ضرورت ہوگی۔
ان کے مطابق جنگ ایک انتہائی پریشان کن ماحول پیدا کر رہی ہے جس سے پیدائش میں پیچیدگیاں ہونے کا امکان ہے اور یہ حمل کے ضائع ہونے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی نے پیدائش کے صرف تین گھنٹے بعد ڈسچارج ہونے والی ایک خاتون کے ’خوف ناک‘ کیس کا حوالہ دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ نفلی ہیمرج کے علاج کے لیے خون، ٹانکوں کے لیے اینٹی سیپٹک اور نال کٹنے کے بعد علاج کے لیے جراثیم کش ادویات کی کمی ہے۔
مزید بتایا گیا کہ اقوام متحدہ کی ایجنسی غزہ میں اب تک 8 ہزار ڈلیوری کٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے، ان میں نال کاٹنے والے کٹرز، نوزائیدہ بچوں کے لیے کمبل، ڈسپوزایبل چادریں اور دیگر اشیا شامل ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت نے اقوام متحدہ کے ادارے کی جانب سے فراہم کردہ کٹس کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ چند خواتین رش والی پناہ گاہوں میں دائی کے بغیر بچوں کو جنم دینے پر مجبور ہیں۔
ڈومینک ایلن نے کہا کہ غزہ کا ڈراؤنا خواب انسانی بحران سے کہیں زیادہ ہے، یہ انسانیت کا بدترین بحران ہے۔
شمالی غزہ کے شدید بمباری سے متاثرہ جبالیہ پناہ گزینوں کے کیمپ میں کام کرنے والا امدادی گروپ العودہ ہسپتال میں خواتین کی مدد کر رہا ہے جبکہ ہسپتال کئی دنوں سے بجلی سے محروم ہے۔
ایکشن ایڈ کے ریحام جعفری کاکہنا تھا کہ غزہ میں ہزاروں خواتین بچوں کو جنم دیتے وقت خطرات میں ہوتی ہے، وہ بغیر اسٹیریلائزیشن، بے ہوشی کی دوا یا درد کش ادویات کے سی سیکشن اور ایمرجنسی آپریشنز کر وا رہی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ خواتین معیاری صحت کی دیکھ بھال اور محفوظ جگہ پر جنم دینے کے حق کی مستحق ہیں لیکن اس کے بجائے انہیں اپنے بچوں کو مکمل طور پر بدترین حالات میں دنیا میں لانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔