امام حسین علیہ السلام کی ذات سلسلہ عصمت کا پانچواں اور سلسلہ امامت کا تیسرا درخشاں ستارہ ہیں ۔مشھور قول کے مطابق تین شعبان المعظم چار ہجری کو مدینہ منورہ میں جمعرات کے دن پیدا ہوئے۔١
الارشاد میں ہے کہ: امام حسین علیہ السلام صرف چھ ماہ ماں کے شکم میں رہے،تاریخ میں دو معصوم ایسے ہیں جو صرف چھ ماه ماں کے شکم میں رہے ،ایک حضرت امام حسین علیہ السلام اور دوسرے حضرت یحیی علیہ السلام ہیں۔امام حسین علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام کے اسم مبارک حکم الہی سے خود رسول خدا[ص]نے منتخب کیا ہے ۔
امام حسین علیہ السلام کی خاندانی عظمت:
امام علیہ السلام کی شخصیت ہی کچھ ایسی ہے کہ جس طرف دیکھیں عظمت و شرافت کا مالک نظر آتے ہیں ،ان کا خاندا ن ہی عظمت و شرافت کا گنجینہ ہے۔امام حسین علیہ السلام کے نانا رسو ل خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نانی حضرت خدیجہ علیھا السلام داداابوطالب علیہ السلام دادی فاطمة بنت اسدسلام اللہ علیھا بابا امام علی علیہ السلام ،ماں حضرت زھراءعلیھا السلام اور بھائی امام حسن علیہ السلام ہیں،کہ جن کی مثل دنیا میں نہیں ہے ۔امام حسین علیہ السلام کی ذات میں بہت سارے گذشتہ انبیاء کی صفات نظر آتیں ہیں۔حکم الہی کو بدون چون و چرا قبول کرنے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح،صبر میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی طرح،ہیبت میں حضرت موسی علیہ السلام کی طرح،شجاعت میں بابا علی مرتضی علیہ السلام کی طرح،فضیلت و تقوی میں ماں فاطمة الزھراء علیھا السلام کی طرح،سخاوت و عطا میں حضرت خدیجہ علیھا السلام کی طرح اور حلم میں بھائی حسن علیہ السلام کی طرح ہیں۔امام حسین علیہ السلام باغ نبوت کے ایک مہکتے ہوئے پھول ہیں ۔
امام حسین علیہ السلام کی ذات حسب و نسب دونوں طرف سے عظمت و شرافت کی مالک ہے ۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خاندان کے بارے میں واضح الفاظ میں فرمایا:کہ ہمارا خاندان نور سے خلق کیا گیاہے حسین علیہ السلام کے نور سے بھشت اور حوروںکو پیدا کیا گیا ہے ،پس جنت اور حوروں سے حسین علیہ السلام افضل ہیں کیونکہ جنت اور حوریں حسین علیہ السلام کے نور سے خلق ہوئی ہیں ۔ایک اور حدیث میں حضور اکرم [ص] نے ارشاد فرمایا ہے :کہ مجھے ،علی ،حسین اور حسین کو خدا نے نور عظمت سے اس وقت خلق کیا ،جس وقت خدا کیلئے تسبیح و تقدیس نہیں تھیں۔٢
امام حسین علیہ السلام کی پرورش پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش میں :
علمائے اخلاق و تربیت کہتے ہیں کہ جس قدر مربی عظیم اور صفات عالیہ کا مالک ہو گا اسی قدروہ بچے کی تربیت میں زیادہ اثر انداز ہو گا ۔اس لحاظ سے امام حسین علیہ السلام کے مربی افضل الانبیاء و سرکار دو عالم حبیب خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات تھی،جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کی تربیت کی ۔امام حسین علیہ السلام کی تربیت ایک سال تک خود رسول خدا[ص]نے کی اور تمام اسرار رسالت و ولایت پیامبر اکرم [ص]نے امام حسین علیہ السلام کو تلقین کی ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسین علیہ السلام کو اپنی آغوش میں لے کر تعلیمات آسمانی کی تعلیم دی کی،اس عظیم مربی کی پرورش ہی کانتیجہ تھا کہ جس نے امام حسین علیہ السلام کو ایک ایسی عظیم شخصیت کا مالک بنا دیا ۔کئی صدیاں گزر جانے کے باوجود پورا جہان امام علیہ السلام کی عطمت اور بزرگی کا معترف ہے اور اس پاک ذات پر درود وسلام بھیج رہا ہے۔
پیغمبر اکرم [ص] کی امام حسین علیہ السلام سے بے پناہ محبت:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام حسین علیہ السلام کو بہت زیادہ چاہتے تھے ۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا اندازہ اس طرح ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بیٹے ابراہیم سے امام حسین علیہ السلام کو زیادہ چاہتے تھے۔جیسے خداوند تبارک و تعالی نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابرہیم اور حسین کی موت میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کو کہا تو اس وقت حضور اکرم[صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم] نے اپنے بیٹے کی موت کو ترجیح دی یعنی بیٹے کی موت پر راضی ہوئے لیکن حسین علیہ السلام کی موت برداشت نہیں ہوئی ،اس طرح حضور[صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم]نے اپنے بیٹے ابراہیم کو حسین علیہ السلام پر قربان کر دیا۔
ابن عباس سے روایت ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بیٹے ابراہیم کی موت کے تین دن گزرنے کے بعد جب بھی امام حسین علیہ السلام کو دیکھتے تو حسین علیہ السلام کا بوسہ لیتے ،سینے سے لگاتے،دھان مبارک کو چومتے اور فرماتے :(فدیت من فدیتہ بابنی ابراہیم) میں اس پر فدا جس پر میں نے اپنے بیٹے ابراہیم کو فدا کیا۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم [ص] کی حسین علیہ السلام سے شفقت ومحبت کا اندازہ درج ذیل احادیث سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے جیسے(حسین منی و انا من الحسین) حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ۔
ابن بابویہ نے معتبر سند کے ساتھ حذیفہ سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا : ایک دن میں نے دیکھا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام حسین علیہ السلام کے ہاتھ کو تھام کر فرمارہے تھے : اے لوگو ! یہ حسین بن علی ہیں ،اس کو پہچان لو ،اس خدا کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ،حسین اور ان کے دوست جنت میں ہو نگے بلکہ ان کے دوستوں کے دوست بھی جنت میں ہونگے،اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اظہار محبت کرتے ہوئے کسی اور جگہ فرماتے ہیں :(الحسن و الحسین سیدا شباب اھل الجنة) ٣ امام حسین علیہ السلام کی ذاتی خصوصیات ١۔عبادت و بندگی:
امام حسین علیہ السلام کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت بارگاہ الہی میں خضوع وخشوع سے عبادت کی بجا آوری تھی۔بعض مورخین کے مطابق آپ نے پچیس مرتبہ پیدل حج انجام دئیے ،امام حسین علیہ السلام کا قیام ہی اصل میں فرائض اور واجبات الہی کو احیاء کرنے کے لئے تھا ،اسی وجہ سے امام حسین علیہ السلام نے شب عاشورہ دشمنوں سے ایک رات کی مہلت مانگی تاکہ خداوند متعال سے راز ونیاز کر سکیں ۔عبد اللہ ابن عاصم ضحاک ابن عبد اللہ مشرقی سے نقل کرتے ہیں کہ :شب عاشورہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب نے پوری رات نماز ،استغفار،دعا اور خدا سے راز و نیاز میں گزاری۔٤ا ،اسی طرح امام حسین علیہ السلام نے روز عاشورہ دشمنوں کے سامنے نماز ظہر قائم کی ،اس جنگی ماحول میں نماز قائم کرنا عشق عبادت اور بندگی الھی کا واضح ثبوت ہے اسی وجہ سے زیارت امام حسین علیہ السلام میں ہم کہتے ہیں کہ ( اشھد انک قد اقمت الصلوة و آتیت الزکوة۔۔۔) میں گواھی دیتا ہوں کہ بے شک آپ[ع] نے نماز قائم کی اورزکوة دی٥جب آپ نماز کے لئے وضو کرتے تو آپ[ع] کے چہرہ اقدس کا رنگ متغیر ہوجاتا۔آپ کو عبادت سے اس قدر محبت تھی کہ آپ تلواروں کے سائے میں بھی ذکر الہی بجا لاتے رہے علامہ اقبال نے اس حالت کی منظر کشی کچھ یوں بیان کی ہے،
نہ مسجد میں نہ بیت اللہ کی دیواروں کے سائے میں نماز عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں٦
٢۔ایمان اور اعتقاد راسخ:
امام حسین علیہ السلام کی صفات عالیہ میں سے ایک عظیم صفت آپ کا مضبوط ایمان اور راسخ اعتقاد ہے ۔امام حسین علیہ السلام حقیقی عاشق خدا تھے۔یہی عشق ومحبت پروردگارتھی کہ جس نے امام[ع] کی ذات میں غیرت دینی ایجاد کی اور انحرافات دینی اوردین میں پیدا کی ہوئی بدعتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی پوری طاقت وقوت کے ساتھ دین و شریعت کا دفاع کیا۔ ٣۔فصاحت وبلاغت:
خاندان رسالت کی فصاحت و بلاغت حد بیان سے باہر ہے اس گھرانے کا ہر فرد میدان فصاحت و بلاغت کا مایہ ناز شہسوار نظر آتا ہے ۔فصاحت و بلاغت میں اس قدر مشہور تھے کہ دشمن بھی ان کی تعریف کرتے تھے ۔حضرت امام حسین علیہ السلام بھی خانوادہ رسالت کے ایک بے نظیر خطیب تھے آپ[ع]کے متعلق امیر شام کہتا ہے : بنی ہاشم کے ہرفرد کی تیز زبانیں پتھر میں شگاف ڈالتی ہیں اور الفاظ ومعانی اس طرح امڈ آتے ہیں جس طرح سمند رسے پانی کی لہریں آتی ہیں ۔شیخ محمد طلحہ شافعی لکھتے ہیں :امام حسین علیہ السلام اپنے دور کے سب سے زیادہ فصیح و بلیغ تھے۔ ٤۔تواضع و انکساری
امام حسین علیہ السلام کی زندگی کا ہر لمحہ تواضع و انکساری اور غرباء و مساکین پر شفقت و مہربانی میں گزرا،آپ یتیموں ،غریبوں اور مسکینوں کے گھروں میں ضروریات زندگی اپنی پشت مبارک پر اٹھا کر لے جاتے تھے جس کی وجہ سے آپ[ع] کی پشت مبارک پر گٹھوں کے نشانات موجود تھے۔