گلیشیئر جھیلوں کے سائز میں آ رہے بدلاؤ کے سلسلے میں چونکانے والا خلاصہ ہوا ہے۔ اس تعلق سے مرکزی آبی کمیشن (سی ڈبلیو سی) کی تازہ رپورٹ میں نئی جانکاری حاصل ہوئی ہے۔
کمیشن نے ہمالیائی گلیشیئر جھلیوں کے رقبے میں بدلاؤ کے اندازہ کے لیے سال 2011 سے ستمبر 2024 تک کی حالت کا مطالعہ کیا جس میں پتہ چلا کہ ہے ہندوستان میں گلیشیئر جھیلوں کا رقبہ 1962 ہیکٹیئر تھا جو ستمبر میں 2024 تک بڑھ کر 2623 ہیکٹیئر ہو گیا ہے۔ اس طرح یہ اضافہ تینتیس اعشاریہ 7 فیصد درج ہوا ہے۔
آب و ہوا کی تبدیلی کے سبب گلیشیئر تیزی سے پگھلتے جا رہے ہیں۔ اس سے گلیشیئر جھیلوں کا دائرہ مسلسل خطرناک حالت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہمالیائی علاقوں میں گلیشیئر جھیلوں میں 13 سال کے وقفے میں 33.7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اتراکھنڈ سمیت پانچ ریاستوں میں حالات اور تشویشناک نظر آ رہے ہیں۔ یہاں گلیشیئر جھیلوں کا سائز 40 فیصد سے زیادہ بڑھا ہے۔
کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گلیشیئر جھیلوں کا دائرہ بڑھنے کے ساتھ ہی دوسرے آبی ذخائر میں بھی پانی کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سال 2011 میں گلیشیئر جھیلوں سمیت دیگر آبی ذخائر کا کُل رقبہ 4.33 لاکھ ہیکٹیئر تھا، جو اب بڑھ کر5.91 لاکھ ہیکٹیئر ہو گیا ہے۔
اونچائی والی گلیشیئر جھیلوں سے نچلے علاقوں میں سیلاب کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ سیلاب کا خطرہ سرحد پار بھوٹان، نیپال اور چین جیسے پڑوسی ملکوں میں بھی نظر آتا ہے۔
آبی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 67 ایسی جھیلوں کی پہچان کی گئی ہے جن کے سطحی رقبہ میں 40 فیصد سے زیادہ کا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ یہ حالت اتراکھنڈ سمیت لداخ، ہماچل پردیش، سکم اور اروناچل پردیش میں سب سے زیادہ ہے۔ ایسی جھیلوں سے گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (جی ایل او ایف) کا خطرہ زیادہ ہے اور اس کی وسیع نگرانی کی سفارش کی گئی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹیڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ (آئی سی آئی ایم او ڈی) نے اپنی ایک رپورٹ میں اہم خلاصہ کیا تھا۔ اس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 2011 سے 2020 تک گلیشیئر پگھلنے کی رفتار 2000 سے 2010 کے مقابلے میں 65 فیصد زیادہ رہی ہے۔
گلیشیئر کے پگھلنے کی یہ رفتار انتہائی تشویشناک ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہمالیہ تقریباً 165 کروڑ لوگوں کے لیے اہم آبی ذرائع ہے۔ اگر یہی رفتار رہی تو صدی کے آخر تک گلیشیئر 80 فیصد تک ختم ہو سکتے ہیں۔