موسمیاتی تبدیلی، یوکرین میں جنگ اور اس کے نتیجے میں زرعی پیداوار میں کمی نے، یورپ میں خوراک کے بحران کا خطرہ بڑھا دیا ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی ان دو بڑے زرعی پیداواری ممالک میں، اناج کی پیداوار میں کمی آئی ہے۔
یہ ایسے میں ہے کہ جب انڈونیشیا نے یورپ کے لئے پام آئل کی برآمدات پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے اور اس دوران بحیرہ روم کا خطہ پہلے سے زیادہ صحرا میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔
یوکرین کے ساتھ روس کا تنازعہ شروع ہونے کے بعد، مغربی ملکوں نے ماسکو کے اقدامات کی مذمت کرکے اوراس پر اقتصادی دباؤ میں شدت پیدا کرنے کے بعد، کی ایف کے لیے ہمہ جہتی سیاسی، مالی اور ہتھیاروں کی حمایت کو اپنے ایجنڈے میں قرار دیا اور جنگ کی آگ کو ہوا دی۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے روس کے خلاف ایسے میں پابندیاں لگا رکھی ہیں کہ مغرب اپنے تمام تر دشمنانہ اقدامات کے باوجود اس بات سے خوفزدہ ہے کہ اقتصادی شعبے خاص طور پر تیل اور گیس کے شعبے میں روس پر پابندیوں میں شدت لانے سے یورپ کی اقتصادی صورتحال اور عالمی توانائی کی منڈیوں کے حالات مزيد ابتر ہوجائیں گے۔
روس کے خلاف عائد کی گئی پابندیوں کے سبب اس وقت یورپی معیشت کو بہت زيادہ چیلنجوں کا سامنا ہے۔ پیوٹر میگنوشوفسکی نے اسی سلسلے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں افراتفری کی صورتحال پیدا ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔
ماہرین کے مطابق، اگرچہ خوراک کے تحفظ کے نقطہ نظر سے دنیا کے بہترین حصے میں، خوراک کے بحران کے بارے میں انتباہ کسی حد تک دور کی بات ہو، لیکن یورپ کو گزشتہ چار برسوں میں خوراک کی پیداوار، تقسیم اوراستعمال میں کئی جھٹکے دیکھنے پڑے ہيں۔ اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیوں نے زرعی شعبے کی پیداوار کو بھی متاثر کیا ہے۔ اس لیے ماہرین کا خیال ہے کہ یورپ میں خوراک کا بحران شدت اور تیزی کے ساتھ قریب آ رہا ہے۔
شمالی یورپ کی وزراء کونسل کےفوڈ سسٹم کی سینئر مشیر کیٹیا سوینسن کہ جنہوں نے یورپ میں خوراک کے بحران کے حل میں حصہ لیا، بروقت کارروائی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ شمالی یورپ کے رہنماؤں کو اپنے زیر انتظام علاقوں میں کارروائی کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) میں روسی رابطہ دفتر کے ڈائریکٹر اولیگ کوبیاکوف نے کہا تھا کہ ایک طرف بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب میں رونما ہونے والی صورتحال اور دوسری طرف یورپ میں وسیع پیمانے پر کسانوں کی ہڑتالوں سے خوراک کی عالمی تجارت متاثر ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے عالمی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ یورپی یونین کے کئی رکن ممالک جیسے اٹلی، فرانس، جرمنی اور بیلجیئم کے کسانوں نے حال ہی میں زراعت کے شعبے میں معاشی مسائل اور حکومتی تعاون کی کمی کے خلاف ملک گیر احتجاج شروع کیا ہے۔