فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ امریکا کا سینچری ڈیل منصوبہ بیت المقدس یا مسجد الاقصی کو فلسطینیوں سے جدا نہیں کرسکتا۔
فلسطینی تحریک حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے غزہ میں منعقدہ ایک کانفرنس میں اپنے خطاب میں کہا کہ بیت المقدس نہ تو مشرقی ہے اور نہ مغربی ہے بلکہ اسلامی ہے اور کوئی بھی ڈیل بیت المقدس یا مسجد الاقصی کو فلسطینیوں سے جدا نہیں کرسکتی۔ حماس کے ایک اور رہنما اسماعیل رضوان نے بھی بحرین اقتصادی کانفرنس کو سینچری ڈیل نامی امریکی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی ایک سازش قراردیا ہے۔ انہوں نے ان عرب ملکوں سے جو اس کانفرنس میں شرکت کا ارادہ رکھتے ہیں کہا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔ اسماعیل رضوان کے بقول فلسطینی گروہ سینچری ڈیل کے سیاسی ، اقتصادی اور سیکورٹی سمیت ہر طرح کے نتائج کو مسترد کرچکےہیں اور ان کے مخالف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی گروہ اس منصوبے کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ حماس کے رہنما اسماعیلی رضوان نے سبھی فلسطینیوں سے کہا ہے کہ وہ جمعے کو سینچری ڈیل اور بحرین کانفرنس کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں بھرپور شرکت کریں۔ غزہ میں دیگر فلسطینی گروہوں نے بھی عرب ملکوں سے کہا ہے کہ وہ امریکا کی نگرانی میں ہونے والی بحرین کانفرنس کابائیکاٹ کریں۔ بحرین کانفرنس جسے سینچری ڈیل منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے پہلے قدم کےطور پر دیکھا جارہا ہے پچیس اور چھبیس جون کو بحرین کے دارالحکومت منامہ میں ہو رہی ہے۔ اس درمیان لبنان کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری نے کہا ہے کہ امریکی اور اسرائیلی منصوبے سینچری ڈیل کے خلاف لبنان اپنے اٹل موقف پر قائم ہے۔ لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے امریکی منصوبے سینچری ڈیل کی مخالفت میں فلسطینیوں کے متحدہ موقف کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اگر عرب ممالک اس ظالمانہ منصوبے کا ساتھ نہ دیں تو امریکا اور اسرائیل کا ناپاک اور شرمناک منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ قبل ازیں لبنان کے وزیرخارجہ جبران باسیل نے بھی بحرین اقتصادی کانفرنس کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کانفرنس سینچری ڈیل پر عمل درآمد کے راستے میں پہلا قدم ہے انہوں نے زور دے کر کہا تھا کہ لبنان اس کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا۔ امریکا کے تیار کردہ سینچری ڈیل منصوبے میں فلسطینیوں کے سارے حقوق نظر انداز کردئے گئے ہیں۔ اس منصوبے میں بیت المقدس کو صیہونی حکومت کے حوالے کردیا جائے گا جبکہ فلسطینی پناہ گزینوں کو وطن واپسی کے حق سے محروم کرنے کے ساتھ غزہ اور غرب اردن کے ایک محدود علاقے پر ہی فلسطینیوں کا حق ہوگا۔