لکھنؤ : خطیب اکبر مولانا مرزامحمد اطہراور خطیب العرفان مولانا مرزا محمد اشفاق شوق ؔ لکھنوی اردو زبان کے ممتاز و منفرد خطیب تھے۔خطیبوں کی کثرت اور خطابوں کی ارزانی کے دور میں بہت کم ایسے خطیب پائے جاتے ہیں جو خطابت کے جملہ لسانی و ادبی تقاضوں کا پاس و لحاظ رکھ کر خطابت کرتے ہیں۔
خطیب اکبر اور خطیب العرفان دونوں بھائی نہ صرف ملت شیعہ کا وقار تھے بلکہ دونوں خطیب خطابت کا اعتبار تھے۔ ان کی خطابت کے اسالیب ان کے خود کے وضع کیئے ہوئے تھے، معاصر عہد میں اتنے شیریں سخن خطیب نہیں پائے جاتے ہیں، شیریں سخنی ان کی خاندانی وراثت تھی ا ن کے والد مرحوم فخرالواعظین مولانا مرزا محمد طاہر بھی اپنے زمانے میں شیریں سخنی کیلئے مشہور تھے۔
ان خیالات کا اظہار اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر فضل امام رضوی نے آل انڈیا خیبر شکن اکادمی کی جانب سے شیعہ پی جی کالج (سیتاپور روڈ) خطیب اکبر لائبریری میں منعقدادبی مذاکرہ میں کیا جو خطیب اکبر اور خطیب العرفان کے علمی افادات کے عنوان سے منعقد کیا گیا تھاجس میں ہندوستان کے نامور ادیب اور قابل قدر دانشور موجود تھے۔
سری نگر کشمیر سے آئے مہمان مقالہ نگار ماہنامہ حکیم الامت کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر محمد ظفر حیدری نے ’’خطیب اکبربحیثیت ایک صحافی‘‘ اپنا مقالہ پڑھا اور انہوں نے خطیب اکبر کی شخصیت کے ایک اہم اوراب تک مخفی پہلو صحافت پر سیر حاصل گفتگو کی۔ روزنامہ آگ کے مدیر اعلیٰ معروف صحافی اکبر علی بلگرامی نے ’’خطیب العرفان کی سخن سازیاں‘‘ کے عنوان سے ایک پر مغز مقالہ پڑھا ، انہوں نے اپنے مقالے میں خطیب العرفان کو ایک مثالی سخن ساز قرار دیا۔ دہلی سے تشریف لائیں مشہور اسلامی اسکالر ڈاکٹر آل طٰہٰ نے خطیب العرفان کے علمی افادات پر ’’علم و ادب کا مہر درخشاں نہیں رہا‘‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ پڑھا اور خطیب العرفان کی ادبی و علمی شخصیت کے نمایاں ترین پہلوؤں پربڑی خوش اسلوبی سے روشنی ڈالی، شیعہ پی جی کالج کے پرنسپل پروفیسر طلعت حسین نقوی نے ’’شوق لکھنوی کی رثائی شاعری‘‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ پڑھا انہوں نے خطیب العرفان کے مراثی میں کردار نگاری کے وصف کو روشن و منور کیا۔ خطیب اکبر کے فرزند ڈاکٹر اعجاز اطہر نے ’’عم محترم خطیب العرفان ‘‘کے عنوان سے لکھے ہوئے اپنے مقالے میں خطیب اکبر اور خطیب العرفان کی خانگی زندگی کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں حضرات کا ظاہر و باطن ایک تھا، وہ جیسے گھر کے اندر تھے ویسے ہی گھر کے باہر تھے،انہیں منافق مزاج افراد پسند نہیں تھے۔ خیبر شکن اکادمی کے چیئر مین ڈاکٹر مرزا شفیق حسین شفق نے اپنے مقالے ’’خطیب العرفان کی نثری تحریریں‘‘ میں خطیب العرفان کی نثر نگاری کو موضوع سخن بنایا، اور خطیب العرفان کے مضمون ’’مرحوم وکٹوریہ اسٹریٹ‘‘ کو اردو نثرکا اعلیٰ ترین نمونہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فقط ایک مضمون نہیں ہے بلکہ لکھنؤ کی زوال آمادہ تہذیب کا مکمل مرثیہ ہے۔ ڈاکٹر مرزا یعسوب عباس نے ’’خطیب العرفان ایک جہاں دیدہ شخص ‘‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ پڑھا اور انہوں نے اپنے مقالے میں خطیب العرفان کی بصیرت اور ان کی دانشوری پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہیں بابصیرت ادیب اور صاحب طرز شاعر قراردیا۔ سمینار کا آغاز قاری ندیم نجفی نے تلاوت کلام پاک سے کیا اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر مرزا شفیق حسین شفق نے بحسن و خوبی انجام دیئے۔
اس موقع پر کالج کے طلباء و طالبات کے علاوہ سمیع الحسن تقوی،اعجاز زیدی، ڈاکٹر ثروت تقی،ڈاکٹر ابومحمد طیب، علی میثم، ڈاکٹر ایم ایس حسنین، ڈاکٹر نجم الحسن رضوی، ڈاکٹر سرتاج شبر رضوی، مولانا صدف جونپوری، ڈاکٹر مرزا مجرب، ڈاکٹر عابد رضوی، ڈاکٹر فہیم رضوی، ڈاکٹر شجاعت رضوی، ڈاکٹر پرویز مسیح، ڈاکٹر شبیہ رضا باقری،اور وصی رضوی خاص طور سے موجود رہے۔یہ اطلاع علی ارحان نے دی ہے۔