طاعون، اینتھریکس، ٹولاریمیا، منکی پاکس اور اس کے مختلف اقسام ان بیماریوں میں شامل ہیں جن کے آثار دنیا کے متعدد ممالک میں موجود امریکی لیباریٹریوں سے ملے ہیں۔
امریکہ نے سن انیس سو اٹھارہ میں اپنے دشمنوں کے خلاف بایولاجک زہریلے مادوں کا استعمال شروع کیا اور دوسری جنگ عظیم کے موقع پر یعنی سن انیس سو بیالیس میں اس خوفناک ہتھیار کو مزید بڑھاوا دیتے ہوئے اسے جراثیمی ہتھیاروں کی شکل میں میدان جنگ میں داخل کیا۔ دوسری جانب امریکہ نے ہیروشیما اور ناکازاکی پر ایٹم بم سے حملہ کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ کسی بھی اخلاقی اصول کا پابند نہیں ہے اور انسانی اقدار کو بآسانی پاؤں تلے روند سکتا ہے۔
ادھر یوکرین کے بحران کے آغاز کے محض دس دن کے بعد، روس کی وزارت دفاع نے اعلان کیا تھا کہ یوکرین میں موجود کیمیاوی اور جراثیمی لیبوں میں سرگرم ماہرین کے ذریعے ایسے دستاویزات تک دسترسی حاصل ہوئی ہے جس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ کیف، پینٹاگون کی نگرانی میں جراثیمی ہتھیار تیار کر رہا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد اس سلسلے کے دستاویزات کو فوری طور پر ختم کرنے کا حکم بھی امریکی وزارت جنگ کی جانب سے جاری کیا گیا۔
ادھر امریکہ کی ریاست میری لینڈ میں واقع فورٹ ڈیٹرک میں بھی بایولاجیکل لیباریٹریوں کی موجوگی کے ٹھوس شواہد منظر عام پر آچکے ہیں جن کا شمار امریکہ کے جراثیمی ہتھیار تیار کرنے کے انتہائی اہم مراکز میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی امریکہ نے دو سو سے زیادہ کیمیاوی اور جراثیمی ہتھیاروں کے مراکز قائم کئے ہوئے ہیں ۔ بحران سے قبل پندرہ لیب یوکرین میں بھی واقع تھے۔
روس کی وزارت دفاع کے ترجمان جنرل ایگور کوناشنکوف نے یوکرین کے لیبوں کے کارکنوں کے ذریعے ملنے والے دستاویزات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ان بظاہر سائنسی مراکز میں طاعون، اینتھریکس، ٹولاریمیا، منکی پاکس اور مختلف نوعیت کے تیزی سے پھیلنے والے جراثیم پر کام ہو رہا تھا جس کے ٹھوس شواہد ماسکو کو مل چکے ہیں ۔ کوناشنکوف نے بتایا ہے کہ ان دستاویزات کے سلسلے میں روسی ماہرین مزید جانچ پڑتال کر رہے ہیں ۔ اس سے قبل روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بتایا تھا کہ حاصل شدہ دستاویزات کے مطابق، پینٹاگون کو کیف اور اوڈیسا میں واقع امریکی کیمیاوی اور جراثیمی لیباریٹریوں کے، ہاتھ سے نکل جانے کی طرف سے بری طرح تشویش لاحق تھی ۔
رپورٹ کے مطابق، روس کی وزارت دفاع نے ستمبر سن دو ہزار بائیس کو اعلان کیا تھا کہ امریکہ کے حکم پر یوکرین میں موجود بایولاجیکل لیباریٹریوں کو مشرقی یورپ کے دیگر ممالک میں منتقل کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے میدان جنگ کے علاوہ مختلف اجتماعات حتی کہ مختلف سیاسی اور فوجی شخصیات کو بھی کیمیاوی اور جراثیمی ہتھیاروں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس نوعیت کے ہتھیار، جنہیں ڈرٹی ویپن بھی کہا جاتا ہے، استعمال کے کئی دہائی بعد تک جان لیوا ثابت ہوسکتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک اس نوعیت کے ہتھیاروں کی تیاری اور فروخت کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔