برلن : جرمن سیکورٹی ایجنسز کا لرزہ خیز سکینڈل منظر عام پر آ گیا، جرمن سیکیورٹی کمپنیاں پناہ گزینوں کو جسم فروشی پر اکسانے لگیں، اسکینڈل نے جرمن حکومت کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔
جرمن ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ پناہ گزینوں کی نگرانی کے لیے قائم سیکیورٹی کمپنیاں پناہ گزینوں بالخصوص کم عمر افراد کو جسم فروشی کے مکروہ دھندے پر مجبور کرتی ہیں۔
اس چونکا دینے والے انکشاف نے جرمن حکومت کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جرمنی کے جنرل ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق جرمن چانسلر انجیلا میرکل کے ترجمان اسٹیفن زابیرٹ نے بدھ کو پناہ گزینوں کو جسم فروشی جیسے مکروہ دھندے پر مجبور کرنے والی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ خبریں درست ہیں تو ہم ان واقعات کی باریک بینی سے تحقیقات کرائیں گے۔
یہ بات قطعا ناقابل قبول ہے کہ کوئی کمپنی یا ادارہ پناہ گزینوں کی ابتر معاشی حالات کو اپنے ناجائز مقاصد کے لیے استعمال کرے۔ ترجمان نے کہا کہ جو شخص بھی جسم فروشی جیسے شرمناک دھندے میں ملوث پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ حکومت اس طرح کے اخلاقی جرائم کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان سے سختی سے نمٹے گی۔ رپورٹ میں ایک سیکیورٹی اہل کار جس کا چہرہ چھپا دیا گیا کو پناہ گزینوں سے یہ کہتے سنا گیا ہے کہ ’مجھے ایک عورت چاہیے یا کوئی نوجوان لڑکا، بہتر ہے کہ لڑکا کم عمر ہو لڑکا یا لڑکی جتنے کم عمر ہوں گے اتنی ان کی قیمت زیادہ ہو گی۔ مجھے ذاتی طور پر ان کی خواہش ہے۔ ایک دوسرے سیکیورٹی اہل کار نیا نکشاف کیا کہ برلن کی بعض کمپنیاں جسم فروشی کرنے والے پناہ گزینوں اور گاہکوں کے درمیان ڈیل کراتی ہیں اور لین دین یورو کرنسی میں کیا جاتا ہے۔ پناہ گزین کیمپ کے ایک سیکیورٹی اہل کار نے بتایا کہ بہت سے پناہ گزین جسم فروشی کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے پاس پیسہ نہیں اور وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس مکروہ دھندے پر سوچتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کم افراد ہیں جن کی عمریں سولہ سال سے کم ہیں۔ ان کے پاس اور کوئی ذریعہ نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں خاتون سماجی کارکن کا کہنا تھا کہ جسم فروشی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جگہ کی تنگی، جنسی تسکین کی خواہش، خراب سماجی حالات، منشیات کا استعمال، اپنے خاندان کو پیسوں کی فراہمی اہم اسباب ہیں۔ جسم فروشی کرنے والے افراد کی عمریں 12 سے 40 سال کے درمیان ہوتی ہیں۔