لوک سبھا نے آواز ووٹ کے ذریعہ ایک نشست میں تین طلاق جسے مولویوں نے ہی طلاق بدعت بھی کہا اور جایز بھی کہ رہے ہیں قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دے کر اس طرح طلاق دینے والوں کے لئے تین سال کی سزا کا جواز رکھنے کا قانون بنا دیا ہے اب یہ بل راجیہ سبھا جاےگا اور خاص حزب اختلاف کانگریس کے رخ کو دیکھتے ہوئے امید ہے کی وہاں سے بھی منظور ہو جاےگا.
اس کے بعد صدر جمھوریہ بھی اس پر آنکھ بند کر کے دستخط کر دینگے اور سپریم کورٹ تو تیار ہی بیٹھا ہے –اس لئے اگر اس قانون کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کی گی تو وہاں سے بھی نا امیدی ذلت اور رسوائی ہی ہاتھ لگے گی اس لئے مسلم پرسنل لا بورڈ کے جو کم عقل ہٹ دھرم اور نا عاقبت اندیش ارکان اس قانون کے خلاف عدالتی چارہ جوئی اور وھاں سے اسے کا آلعدم کرا لینے کی بات کر رہے ہیں وہ خدا کے لئے بیوقوفوں کی جننت سے باہر آ جاین اور ملت نیز بورڈ کی مزید رسوائی کا سامان نہ کریں-
ممتاز قانون داں پروفیسر طاہر محمود سمیت زیادہ مسلم ماہرین قانون کا خیال ہے کہ طلاق بدعت کا تحفظ شریعت اپلیکیشن ایکٹ کے تحت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ قران کریم میں بتایے گئےطلاق کے طریقه میں اسکا کوئی ذکر یا جواز نہیں ہے-
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ذرا ذرا سی معمولی باتوں پر ایک جھٹکے میں تین طلاق دینا نہ صرف غیر انسا نی اور فطری قانون کے خلاف ہے بلکہ قران کریم میں اسکا کہیں دور دور تک پتا نہیں جب یہ بحث چل رہی تھے تو راقم سمیت سیکڑوں لوگون نے طلاق کے اس طریقہ کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ختم کرنے اور قران کریم میں بتایے گئے طریقے سے طلاق دینے کا فتویٰ جاری کرنے کی اپیل کی تھی لیکن تب اسکی مخالفت کرنے والوں کو ویسے ہی گالیوں سے نوازہ جاتا تھا جیسے سنگھی لونڈے مودی جی کے خلاف بولنے والوں کو دیتے ہیں-
یہ معاملہ جب عدالت گیا تو بھی ہمارے جیسے ہزاروں لوگوں نے لکھا تھا کہ پرسنل لا بورڈ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہا ہے نہ صرف حکومت اور عدلیہ بلکہ خواتین سمیت مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ طلاق کے اس طریقہ کا مخالف ہے بورڈ کی ہٹ دھرمی کا یہ عالم تھا کی اس کی مجلس عاملہ کی ایک ممتاز رکن ڈاکٹر رخسانہ لاری نے جب اس کے خلاف کچھ بولنا چاہا تو انھیں خاموش کرا دیا گیا
جس سے بد دل ہو کر انہون نے بورڈ کی رکنیت سے استیفا دے دیا تھا- بورڈ ایک عجیب مضحکہ خیز بات کرتا ہے کی اس طرح دیا گیا طلاق غلط تو ہے لیکن ہو جاتا ہے یعنی عورت کی تو زندگی تباہ ہو گی اور آپ کے کان پر جوں تک نہ رینگی-اس طریقه سے دے گئے طلاق کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کی اگر غصّہ اترنے کے بعد شوہر اپنی غلطی مانتے ہوئے اسکا ازالہ چاہے تو اسکے پاس کوئی راستہ نہیں بچتا تب حلالہ جیسا بیہودہ اور غیر اسلامی طریقه سامنے آتا ہے اس جواز کا بھی کتنا غلط استعمال ہوتا ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہےیہاں تک کہ اسکا مقصد اور مطلب ہی فوت ہو گیا –
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اگر چاہے تو اب بھی ہاری ہوئی بازی پلٹ سکتا ہے اسے بس طلاق بدعت کے خلاف فتویٰ جاری کرنا ہوگا اور یہ عفریت ہمیشہ کے لیے بوتل میں بند ہو جاےگا جب اس طریقه سے طلاق ہوگا ہی نہیں تو حکومت اپنے بناہے ہوئے قانون کو خود شہد لگا کے چاٹے یا اسے اپنی موت مر جانے دے اس طرح وہ امت مسلمہ کو ایک بہت بڑے عذاب سے بچا لے گا –۔
اب غور کرتے ہیں حکومت کے بناے ہوے نیے قانون کی حکومت نے ایک جھٹکے میں کسی بھی طریقه سے دے جانے والے طلاق بدعت کے خلاف یہ سخت قانون بنایا ہے جس کے تحت پولیس شکایت ملتے ہی ایسے شوہر کو گرفتار کر لے گی اور عدالت اسے تین سال کے لئے جیل بھیج سکےگیاس معاملہ میں ضمانت بھی نہیں ملیگی –
یہاں پہلا قانونی نقطہ تو یہ اٹھتا ہے کہ جب سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت ایسا طلاق ہوا ہی نہیں تو پھر سزا کس بات کی دوسرا قانونی پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں میں نکاح ایک سول معاہدہ ہے جس کے ٹوٹنے پر سول کورٹ میں تو مقدمہ چل سکتا ہے لیکن اسے فوجداری معاملہ کیسے بنایا جا سکتا ہےاس کی کوئی وضاحت اس قانون میں نہیں کی گی ہے دوسرے قانون بناتے وقت حکومت نے اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا کہ جب شوہر جیل میں ہوگا تو پھر اہلیہ بچوں اور اپنے اوپر منحصر دیگر لوگوں کی کفالت وہ کیسے کریگا اس کے علاوہ نان و نفقہ سمیت اور بھی کی معاملات ہیں جو ماہرین قانون اٹھا رہے ہیں مسلم پرسنل لا بورڈ ہی نہیں خود اس معاملہ کو عدالت لے جانے والی خواتین تک کا کہنا ہے کی حکومت نے جلد بازی میں قانون بنا دیا ہے اور ان سے صلاح و مشورہ تک نہیں کیا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور روشن خیال خواتین بھی اس قانون کو خواتین کے مفاد کے خلاف بتا رہی ہیں .
لکھنؤ کی ایک سرگرم سماجی کارکن رفعت فاطمہ کا کہنا ہے اگر ایک نشست میں تین طلاق پوری طرح غلط ہے تو پھر سزا کا کیا جواز کیونکہ عورت تو پھر بھی دوراہے پر کھڈی ہو جاےگی بہتر ہوتا حکومت اس معاملہ پر جلد بازی دکھانے کے بجاے وسیع پیمانہ پر تمام فریقوں سے صلاح و مشورہ کرنے کے بعد کوئی قدم اٹھاتی اس طرح جلد بازی دیکھا کے اس نے ثابت کر دیا کہ اسکا مقصد مسلم خواتین کو راحت پہنچانے کے بجاے سیاسی فایدہ اٹھانا ہے وہیں صدف جعفر کا کہنا ہےکہ جب جیتے جی پیچھا چھو ڈانا مشکل ہو جاےگا تو عورتیں جلائی جانے لگینگی ہمیں انصاف چاہئے بدلہ نہیں اس قانون کے لئے مہم چلانے والی تنظیم آل انڈیا مسلم ویمن پرسنل لا بورڈ کی صدر شائستہ عنبر نے بھی اس قانون اور اس سزا کی مخالفت کی ہے اور اسے خواتین کے مفاد کے خلاف بتایا ہے _۔
یہ تو ایک تلخ حقیقت ہے کہ مودی حکومت نے یہ قانون مسلم خواتین سے کسی ہمدردی کے تحت نہیں بنایا ہے بلکہ یہ در اصل یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی جانب ایک اہم قدم ہے جو آر ایس ایس کا دیرینہ ایجنڈہ رہا ہے دوسری بات اس کا مقصد مسلمانوں کو یہ بھی باور کرانا ہے کہ اب ان کے مذہبی جذبات اور اکابرین کی وہ قدر نہیں ہوگی جو کبھی ہوا کرتی تھی اس لئے نیے ہںدسوتان میں وہ خو د کو نیے ماحول میں ڈھلنے کے لئے تییار کر لیں –اس قانون کے بعد اب اگلا قدم کثرت ازدواج کے خلاف قانون کا ہوگا بھلے ہی ان قوانین کے مضمرات کچھ بھی ہوں لیکن حکومت سنگھ کے ایجنڈہ پر کام کرتی رہے گی۔
لوک سبھا میں اس بل کی منظوری میں نام نہاد سیکولر پارٹیون کا رویہ بھی کچھ کم حیران کن نہیں تھا کانگرسس نے تو چند گھنٹوں میں اپنا رخ دو تین بار بدلا ویسے بھی لوک سبھا میں بی جے پی کی اکثریت کو دیکھتے ہوئے وہاں سے تو اس بل کو منظور ہو ہی جانا تھا ہاں اگر متحدہ اپوزیشن چاہے تو اس بل کو راجیہ سبھا میں روک کے اسے کم سے کم سلیکٹ کمیٹی میں تو بھجوا ہی سکتا ہے تاکہ اس پر اور سنجیدگی و گہرائی سے غور کر کے سماج پر پڑنے والے اس کے بد اثرات کا ازالہ کیا جا سکے –
لیکن ہم پھر بھی یہی کہیںگے کہ کی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ طلاق بدعت کو ختم کرنے کی جانب ٹھوس قدم اٹھا کے ملت کو ہنہن ملک کو ایک بہت بڑےعذاب سے بچا سکتا ہے جس سے بورڈ کی نیک نامی میں بھی چار چاند لگیںگے اور بورڈ پر عام مسلمان کا عتماد مزید پختہ ہوگا۔