واشنگٹن:امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ایران پر پابندیوں میں نرمی کی مدت کو آخری بار بڑھا رہے ہیں تاکہ یوروپ اور امریکہ جوہری معاہدے کی ‘خطرناک کوتاہیوں’ کو درست کر سکیں۔
ٹرمپ نے کل ایک بیان میں کہا”یہ آخری موقع ہے ۔ امریکہ، ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر قائم رہنے کے لئے پابندیوں میں دوبارہ ڈھیل نہیں دے گا۔”انہوں نے ایران پر عائد پابندیوں کی نرمی کی مدت 120 دن بڑھانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔
جمعہ کو امریکی صدر کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں ایران سے معاہدے پر نظرثانی کے حوالے سے کہا گیا کہ’ یہ آخری موقع ہے ، اس طرح کا معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں امریکہ معاہدے ( موجودہ) میں رہنے پر دوبارہ پابندیوں میں نرمی نہیں کرے گا۔’بیان میں مزید کہا گیا کہ’ اگر کسی بھی وقت انھیں اندازہ ہوا کہ اس طرح کا معاہدہ نہیں ہو سکتا تو وہ معاہدے ( موجودہ) سے فوری طور پر دستبردار ہو جائیں گے ۔’دوسری جانب ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا ہے کہ’ یہ ایک ٹھوس معاہدے کو خراب کرنی کی مایوسی پر مبنی ایک کوشش ہے ۔’ امریکہ چاہتا ہے کہ معاہدے میں موجود یوروپی ممالک ایران پر یورینیئم کی افزدوگی پر مستقل پابندی عائد کریں جبکہ موجودہ معاہدے کے تحت یہ پابندی 2025 تک ہے ۔
وائٹ ہاؤس کے سینئر اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اگر نیا معاہدہ نہیں کرتے تو یہ آخری موقع ہے جو صدر نے پابندیوں میں نرمی کی توثیق کی ہو گئی۔
بی بی سی کی اقوام متحدہ میں نامہ نگار کا کہنا ہے کہ کسی بھی بین الاقوامی معاہدے پر 120 دن کے اندر مذاکرات نہیں ہو سکتے جبکہ ایران بھی نیا معاہدہ نہیں چاہتا تو اس صورت میں صدر ٹرمپ یا تو پیچھے ہٹ جائیں گے یا اس سے الگ ہو جائیں گے ۔
اس سے پہلے امریکی حکام کا کہنا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے خلاف معطل کی جانے اقتصادی پابندیوں کو برقرار رکھیں گے اور 2015 میں طے پانے والا جوہری معاہدہ کو خطرہ میں نہیں پڑے گا۔
تاہم حکام کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب اس معاہدے میں بہتری کے لیے کانگریس اور یورپی اتحادیوں کو ڈیڈلائن متوقع ہے ۔خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدہ سے سخت ناقد ہیں، جس کی وجہ سے طویل المدت بحران کا خاتمہ ہوا تھا۔
یوروپی طاقتوں کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ عالمی سلامتی کے لیے اہم ہے ۔ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے اس معاہدہ سے ایران پر امریکہ اور عالمی طاقتوں کی جانب سے عائد پابندیوں کو معطل کیا گیا تھا جبکہ ایران نے اپنا جوہری پروگرام محدود کرنے کی حامی بھری تھی۔
تاہم امریکہ کی جانب سے دہشت گردی، انسانی حقوق اور بیلسٹک میزائل کی تیاری کے حوالے سے الگ سے پابندیاں تاحال قائم ہیں۔
جمعہ کو امریکہ کی جانب سے ایران کی 14 شخصیات اور اداروں پرحقوق انسانی کی خلاف ورزیوں، سینسر شپ اور ہتھیاروں کے پھیلاؤ کا الزام عائد کرتے ہوئے مزید پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
گذشتہ سال اکتوبر میں امریکی صدر نے اس معاہدے کو ‘امریکہ کے لیے بدترین اور یکطرفہ’ قرار دیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ آئندہ چند برسوں میں ایران جوہری ہتھیار تیزی سے بنائے گا۔
انھوں نے ایران پر ‘متعدد خلاف ورزیوں’ کا الزام عائد کیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ کانگریس کے ساتھ مل کر معاہدے کی اس سخت غلطیوں کا ازالہ کریں گے ۔
امریکی کانگریس میں اس معاہدے کے ناقدین نے بھی ایسی قانون سازی کی تجویز پیش کی ہے جس سے ایران کی جانب سے مخصوص عمل کرنے کی صورت میں پابندیاں عائد کی جا سکیں۔
دوسری جانب برطانیہ، فرانس، جرمنی اور یوروپی یونین کے وزرا خارجہ نے اپنے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف سے جمعرات کو بروسیلز میں ملاقات کی ہے اور اس معاہدے پر قائم رہنے کی تائید کی ہے ، جس کو چین اور روس کی حمایت بھی حاصل ہے ۔
ملاقات کے بعد نیوز کانفرنس میں یوروپی یونین، فرانس اور جرمنی نے اس جوہری معاہدے کی حمایت کا اعادہ کیا ہے ۔