ماحولیاتی ماہرین نے پیشگوئی کی ہے کہ امریکی انتخابات کے نتائج موسمیاتی تبدیلی میں مثبت یا منفی اثرات کا باعث بنیں گے۔غیرملکی خبررساں ادارے ‘اے پی’ کے مطابق انتخابی دن جو کچھ ہوگا اس سے کچھ حد تک اس بات کا تعین ہوجائے گا کہ دنیا کی آب و ہوا کتنی زیادہ گرم اور آلودہ ہوگی۔
صدارتی انتخاب کے اگلے ہی دن ہی امریکا موسمیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے لیے 2015 کے پیرس معاہدے سے باضابطہ طور پر دسبردار ہوجائے گا۔
واضحر ہے کہ ایک سال قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اقوام متحدہ کو مطلع کیا تھا کہ وہ ماحولیات سے متعلق عالمی معاہدے سے دستبردار ہوجائے گا۔
امریکا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا کاربن خارج کرنے ملک ہے۔
سابق نائب صدر اور صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے پیرس معاہدے میں ملک کو فوری طور پر واپس لانے کا وعدہ کیا ہے جس کے لیے کانگریس کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔
سائنسدانوں اور ماحولیات کے ماہرین نے کہا ہے کہ اگر امریکا پیرس معاہدے سے دستبردار ہوگیا تو دیگر کچھ ممالک بھی معاہدے سے منکر ہوجائیں گے تو اس کے نتائج وسیع تر ہوں گے۔
کیلیفورنیا میں بریک تھرو انسٹی ٹیوٹ کے ماہر ماحولیات زیک ہاسفادر نے کہا کہ ‘اگر دنیا پیرس معاہدے کے عمل سے دور ہوتی ہے تو شدید گرمی کی لہر پیدا ہوگی’۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے روب جیکسن نے کہا کہ اگر امریکا ماحولیات کے پیرس معاہدے سے خود کو دستبردار کرلیتا ہے آج کے بچے ‘بڑی تبدیلیوں کو دیکھیں گے ہم میں سے پہلے کسی نے نہیں دیکھی ہوگی’۔
جرمنی کی ویگنینگن یونیورسٹی کے آب و ہوا کے سائنس دان نکلاس ہوہنی نے کہا کہ امریکای انتخابات بین الاقوامی ماحولیات کی پالیسی کے لیے ایک اہم مقام ثابت ہوسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ گرمی کی لہروں، گلوبل وارمنگ، جنگل میں لگی آگ، طوفان، خشک سالی اور طوفان کی بڑھتی ہوئی تعداد کے تناظر میں اقوام متحدہ کے موسم کے حوالے سے قائم ادارے نے خبردار کیا تھا کہ جن لوگوں کو بین الاقوامی سطح پر انسانی مدد کی ضرورت ہے ان کی تعداد 2018 میں 10 کروڑ 80 لاکھ کے مقابلے میں 2030 تک 50 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔
بین الاقوامی اسٹیٹ آف کلائیمٹ سروسز 2020 کی رپورٹ 16 بین الاقوامی ایجنسیز اور مالیاتی اداروں نے مرتب کی تھی اور اس رپورٹ میں حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ رقم اس تباہی کے حوالے سے خبردار کرنے والے نظام کے لیے استعمال کریں تاکہ ملکوں کی ان قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت اور ردعمل کو بہتر بنایا جا سکے۔
واضح رہے کہ 3 نومبر کو امریکا میں صدارتی انتخاب کے دن سے قبل ہی لاکھوں امریکی پہلے ہی ووٹ دے چکے ہیں لیکن ہر ریاست کے پاس اس کے مختلف قوانین ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان ووٹوں کی گنتی بیلٹ باکس کے ساتھ شمار کی جائے گی۔
رواں برس ہونے والے انتخاب میں امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن مدمقابل ہیں، انتخاب میں دیگر آزاد امیدوار بھی شامل ہیں لیکن دونوں سیاسی حریفوں کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔