صدر ولادیمیر پیوٹن نے مغربی ممالک پر روس کے خلاف جوہری بلیک میلنگ میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو دوسری جنگ عظیم کے بعد کی سب سے خطرناک دہائی کا سامنا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق دلادیمیر پیوٹن نے کہا کہ انہیں یوکرین میں فوج بھیجنے پر کوئی افسوس نہیں، انہوں نے مغربی ممالک پر جنگ کو بھڑکانے اور پوری دنیا میں افراتفری کا بیج بونے والا ’خطرناک، خونی اور گندا‘ جیو پولیٹیکل گیم کھیلنے کا الزام لگایا۔
روس کے سب سے بڑے رہنما دلادیمیر پیوٹن نے روسی ماہرین کی بیٹھک والڈائی ڈسکشن کلب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی معاملات پر مغربی ممالک کے مضبوط تسلط کا تاریخی دور ختم ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایک تاریخی موڑ پر کھڑے ہیں، ہمارے سامنے شاید سب سے زیادہ خطرناک، ناقابل پیش گوئی اور دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد کی سب سے اہم دہائی ہے۔
مغربی ممالک سے متعلق اظہار خیال کے دوران جب ان سے ایٹمی جنگ کے خدشات کے بارے میں سوال کیا گیا اور یوکرین کی جنگ میں مارے جانے والے روسی فوجیوں کے بارے میں ان کے جذبات سے متعلق پوچھا گیا تو دلادیمیر پیوٹن خاصے پرسکون نظر آئے اور انہوں نے یوکرین کی صورتحال کو جزوی خانہ جنگی قرار دیا۔
سابق برطانوی وزیر اعظم لز ٹرس کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر حالات نے مطالبہ کیا تو وہ لندن کے جوہری ڈیٹرنٹ کو استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں، ولادیمیر پیوٹن نے مغربی ممالک پر جوہری کشیدگی کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا۔
ولادیمیر پیوٹن نے یہ دعویٰ بھی دہرایا کہ یوکرین ماسکو پر الزام لگانے کے لیے خود تابکار مواد سے لیس ’ڈرٹی بم‘ استعمال کرسکتا ہے، انہوں نے کیف کے اس الزام کو بھی غلط قرار دے کر مسترد کر دیا کہ کہ روس خود اس طرح کے دھماکے کا ارادہ رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں، ایسا کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہوگا، روسی سدر نے مزید کہا کہ کریملن نے مغربی ممالک کی جانب سے محسوس ہونے والی جوہری بلیک میلنگ کا جواب دیا ہے۔
روس نے 24 فروری کو یوکرین پر حملہ کیا جس سے مغرب کے ساتھ 1962 کے کیوبین میزائل کرائسز کے بعد سرد جنگ کے دوران بڑا تصادم شروع ہوا اور سوویت یونین اور امریکا ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے۔