لبنان میں حالیہ پیجر اور واکی ٹاکی پھٹنے سے حزب اللہ کا خاصا جانی نقصان ہوا ہے۔ اس وجہ سے مشرق وسطیٰ کے حالات مزید نازک ہو گئے ہیں کیونکہ اب جنگ کا دائرہ لبنان تک بڑھ گیا ہے۔ حالیہ دھماکوں میں ایران کا بھی جانی نقصان ہوا ہے۔ یوں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں بھی مزید اضافہ ہوا ہے۔ حزب اللہ اور لبنان کی حکومت دونوں نے حالیہ دھماکوں کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے۔
گزشتہ روز کی میڈیا اطلاعات کے مطابق پیجر حملوں اور مواصلاتی آلات سے دھماکوں کے بعد اسرائیل نے جنوبی لبنان اور اس کے دارالحکومت بیروت میں جنگی طیاروں سے شدید بمباری کی ہے۔ الجزیرہ ٹیلی ویژن نیٹ ورک نے بتایا ہے کہ لبنان کے دارالحکومت بیروت کے مضافاتی علاقے میں ایک عمارت کو تباہ کر دیا گیا جس کے باعث اس عمارت میں موجود بچوں سمیت 14 شہری مارے گئے اور 66 سے زائد زخمی ہو گئے۔
اطلاعات میں یہ بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے جنوبی لبنان میں 70 مقامات پر 100 سے زائد حملے کیے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلا رہا ہے۔ عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے ایک سینئر ترین کمانڈر ابراہیم عقیل کو فضائی حملے میں شہید کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ جنوبی لبنان پر بمباری کے رد عمل میں اس نے 140 راکٹ اسرائیل پر فائر کیے۔ ان راکٹ حملوں سے کتنا نقصان ہوا ہے، اس حوالے سے کوئی تفصیلات سامنے آ سکیں اور نہ ہی حزب اللہ نے اپنے سینئر کمانڈر کی ہلاکت کے حوالے سے کوئی تصدیقی پریس ریلیز جاری کی ہے۔
اگر لبنان کی حکومت نے پیجر دھماکوں کی ابتدائی تحقیقات کی تفصیلات سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو آگاہ کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں لبنان کے سفارتی مشن نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے لبنان میں پیجرزکے دھماکے الیکٹرانک میسیجز کے ذریعے کیے ہیں۔ میڈیا میں ایسی اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں کہ جن پیجرز کو اڑایا گیا ہے، لبنان پہنچنے سے پہلے ہی ان میں دھماکا خیز مواد نصب کر دیا گیا تھا۔ ان پیجرز کا نارویجین سپلائر لبنان میں دھماکوں کے بعد غائب ہو گیا ہے۔ یوں معاملہ خاصا پیچیدہ بن چکا ہے۔
اس سانحے کے بعد تائیوان میں بھی مشکوک لوگوں کی گرفتاریاں اور تفتیش شروع ہوگئی ہے کیونکہ جن پیجر سے لبنان میں دھماکے کیے گئے ہیں، وہ تائیوان کی کمپنی کے تیار کردہ ہیں۔ میڈیا میں دیے گئے اعداد وشمار کے مطابق لبنانی گوریلا تنظیم حزب اللہ نے5000 ہزار پیجرز تائیوان سے درآمد کیے تھے۔
عالمی میڈیا میں امریکی انٹیلی جنس ذرایع کے حوالے سے یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیل نے 15 سال قبل لبنان میں پیجر دھماکوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔ لبنانی وزیر اعظم میقاتی نے اپیل کی ہے کہ اقوام متحدہ لبنان میں اسرائیل کی ٹیکنالوجیکل وار کا نوٹس لے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ لبنان کی صورتحال بہت تیزی سے بگڑ سکتی ہے جسے روکنے کے لیے بھرپور کوششیں کی جانی چاہئیں۔
ادھر اسرائیل نے غزہ میں بھی مسلسل اپنی فوجی کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ الجزیرہ نے طبی ذرایع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں گزشتہ روز 34 فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ ادھر فلسطینی نژاد امریکی رکن کانگریس راشدہ طلیب نے غزہ میں شہید ہونے والے بچوں کے ناموں پر مشتمل 650صفحوں کی دستاویزات امریکی کانگریس میںپیش کر دی ہے۔ ان اعداد وشمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غزہ میں معصوم بچوں کی ہلاکتوں کا تخمینہ کتنا زیادہ ہے۔
لبنان میں حزب اللہ کے رہنماؤں اور کارکنان کے زیر استعمال 3 ہزار سے زائد پیجرز جس انداز میں یکے بعد دیگرے دھماکوں سے پھٹے ہیں اور گزشتہ روز شہدا کی نماز جنازہ میں واکی ٹاکی کو بھی دھماکوں سے اڑایا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں جس قدر زیادہ جانی نقصان ہوا ہے، اس نے مشرق وسطیٰ میں ٹیکنالوجیکل وار فیئر کا نیا پہلو متعارف کروا دیا ہے۔ عام استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کو دھماکوں کے لیے استعمال کرنا انتہائی خطرناک پیش رفت ہے کیونکہ یہ ٹیکنالوجی عام صارفین بھی استعمال کرتے ہیں۔ لبنان کی حکومت اور حزب اللہ دونوں نے پیجرز اور واکی ٹاکیز دھماکوں کی ذمے داری اسرائیل پر عائد کی ہے۔ اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں تاہم قرائن یہی بتاتے ہیں کہ ان دھماکوں میں اسرائیلی ایجنسیز کے کردار کو نظرانداز کرنا خاصا مشکل کام ہے۔
اقوام متحدہ تک یہ معاملہ پہنچ چکا ہے جب کہ امریکا بھی اس صورت حال سے پوری طرح آگاہ ہے۔ اس وقت امریکا میں چونکہ الیکشن چل رہے ہیں اس لیے بائیڈن انتظامیہ شاید کوئی بڑا فیصلہ لینے کے قابل نہیں ہے۔ اسی صورت حال میں عموماً خفیہ ایجنسیاں زیادہ کھل کر کام کر جاتی ہیں۔ اگر غزہ میں جنگ بندی ہو جاتی تو شاید کشیدگی کا لیول اس قدر ہائی نہ ہوتا۔
غزہ میں جنگ بندی نہ ہونے کی زیادہ تر ذمے داری امریکا اور یورپی یونین پر عائد ہوتی ہے۔ گو اس معاملے میں روس اور چین جیسی ویٹو پاورز کا رویہ بھی زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آیا جب کہ بھارت، برازیل اور عرب لیگ نے بھی کوئی زیادہ متحرک کردار ادا نہیں کیا جس کے نتیجے میں غزہ میں جنگ بندی نہ ہو سکی۔ امریکا نے جنگ بندی سے متعلق سیکیورٹی کونسل کے بیانات کو بھی روک دیا تھا۔
امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ اینٹونی بلنکن نے ماضی میں کہا تھا کہ اس بات کا فیصلہ فریقین کوکرنا ہے کہ وہ جنگ بندی چاہتے ہیں یا نہیں۔ اس بیان کا یہ مطلب ہے کہ امریکا غزہ میں جنگ بندی کے لیے اسرائیل پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہتا۔ اسرائیل کے عزائم ابتدا ہی سے توسیع پسندانہ چلے آ رہے ہیں، فلسطینیوں پر مظالم بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اسرائیل جب ایک ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا تو اس وقت اس کا کل رقبہ صرف پانچ ہزار مربع میل تھا اور اس کی حدود میں کم و بیش پانچ لاکھ یہودی آباد تھے لیکن آج فلسطین کی ریاست شام کے گولان ہائیٹس تک اور لبنان کی سرحدوں تک پہنچ چکی ہے۔ اسرائیل کے خلاف آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں، لیکن اسرائیل کے کانوں پر کبھی جوں تک نہیں رینگتی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ امریکا سمیت کئی عالمی طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کی ہر جارحیت کی حمایت ہے۔
رواں برس چار مارچ کو یہ خبر آئی تھی کہ عالمی عدالت انصاف کی چیف پراسیکیوٹر، فتاؤ بن سودا نے فلسطینی علاقوں میں مبینہ جنگی جرائم کی باقاعدہ تحقیقات کا آغازکردیا ہے۔ فتاؤ بن سودا نے کہا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے دوران تیرہ جون2014 سے اب تک کے اسرائیل کے زیرِ قبضہ غربِ اردن، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی میں ہونے والے واقعات کا احاطہ کیا جائے گا۔
عالمی عدالت انصاف (آئی سی سی) کو یہ اختیار ہے کہ وہ ریاستوں اور اُن خِطوں کی سرزمین پر نسل کُشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف معاہدہ روم کے مطابق کارروائی کرے، جنھیں اقوام متحدہ تسلیم کرتا ہے۔ عالمی عدالت کی تشکیل کی بنیاد معاہدہِ روم ہے، لیکن اسرائیل نے کبھی معاہدہِ روم کی توثیق نہیں کی، تاہم اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے 2015 میں فلسطینیوں کے الحاق کی توثیق کردی تھی۔
مشرقی تیمور میں آزادی کے مطالبے کی عالمی برادری نے جس سرعت کے ساتھ حمایت کی کاش ایسی پھرتی فلسطین کے نہتے عوام پر اسرائیلی مظالم کے جواب میں بھی نظر آتی۔ ان تمام حالات کے باوجود سرنگ کے آخری کنارے پر کچھ روشنی بھی معلوم ہوتی ہے، اسی لیے تو اسرائیل اپنی تمام توپوں، گولوں، فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کے باوجود جارحیت کو طول نہیں دے سکا۔
یہ عالمی رائے عامہ کا فلسطینیوں کے حق میں جھکاؤ ہے جس کا واضح ثبوت امریکا اور مغربی ممالک میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے ہیں۔ پاکستان میں سول سوسائٹی اور دیگر تمام اداروں اور تنظیموں کی جانب سے فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کی پرزور انداز میں مذمت کی گئی اور اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی برادری پر واضح کیا گیا کہ اسرائیلی اقدام کے نتائج انتہائی خطرناک اور بے نتیجہ ثابت ہوں گے اور نہ صرف مسلم امہ بلکہ عالمی برادری بھی فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔
اسرائیل فلسطینیوں پر بدترین جارحیت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ معصوم بچے، بوڑھے اور خواتین اس جارحیت کا سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود عالمی طاقتیں اسرائیل کے جارحانہ عزائم اور ظلم پر خاموش ہیں۔ ایسے میں عالمی امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں فلسطینیوں کی عوامی حمایت میں اضافہ ہورہا ہے، لیکن کیا اس سے اسرائیل کے جارحانہ عزائم اور فلسطینی علاقوں پر قبضے کو روکا جاسکتا ہے؟ یا مشرق وسطیٰ میں جو جنگ کے بادل چھا رہے ہیں، وہ چھٹ سکتے ہیں؟