اگرچہ ہرنئے سال کا سورج انسان کے لیے نئی امیدیں لے کر طلوع ہوتا ہے مگر 2019ء فلسطینی قوم کے لیے خوش کم اور مایوس کون زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ فلسطین میں عام شہری ہوں یا پالیسی ساز ماہرین ہرایک گذشتہ برس کے دوران پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں نئے سال کو بھی دیکھتا ہے۔
فلسطینیوں کےدرمیان پائی جانے والی ناراضیاں، غزہ اور غرب اردن کے درمیان فاصلے بالخصوص حماس اور فتح کے درمیان جاری محاذ آرائی فلسطینیوں کے لیے مایوسی کا باعث ہے۔
گذشتہ برس مصر نے فلسطینیوں کو آپس میںمتحد کرنےکے لیے ہرسطح کی مصالحتی کوششیں کیں مگر ان مساعی کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا۔ حماس اور فتح کی طرف سے مصر کی طرف سے پیش کی گئی مصالحتی تجاویز کو قبول کیا گیا۔ قومی وفاق حکومت کی تشکی سے اتفاق کیا گیا مگر اس کےباوجود غزہ میں حماس کی حکومت نے فتح کے رہ نمائوں اور کارکنوں کےخلاف کریک ڈائون کیا۔ دوسری جانب غرب اردن میں صدرعباس نے حماس پر جاسوسی کاالزام عاید کیا اور جماعت کو اس کی تاسیسی تقریبات کے انعقاد سے محروم رکھا۔
فلسطینی صدر نے دسمبر کے آخری عشرے میں فلسطینی مجلس قانون ساز تحلیل کردی اور صدر عباس نے 2019ء میں پارلیمانی انتخابات کرانے ک بھی عندیہ دیا ہے۔
امریکی ثالثی اور امن عمل
سال 2018ء کے دوران امریکا نے مقبوضہ بیت المقدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کیا۔امریکا نے تل ابیب سے اپنا سفارت خانہ القدس منتقل کردیا جس پر فلسطینیوں میں سخت غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے امریکا کے ساتھ مذاکرات ختم کردیے اور تنازع فلسطین کے حوالےسے امریکا کی کسی بھی قسم کی ثالثی کو مسترد کردیا۔ امریکا نے مزید انتقامی کارروائی کرکے فلسطینی اتھارٹی کی امداد بند کردی جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کی پناہ گزین ایجنسی”اونروا” کو شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔
نیا سال بھی 2018ء کی نسبت فلسطینیوں کے لیے اچھا دکھائی نہیں دیتا۔ امریکا نے چند روز پیشتر فلسطین میں اپنے تمام ترقیاتی پروگرام روکنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکا فلسطین ۔ اسرائیل تنازع کے حل کے لیے “صدی کی ڈیل” کے ایک نئے پروگرام پرکام کررہا ہے مگر فلسطینی قیادت نے امریکا کے امن فارمولے کو مسترد کرتےہوئے اسے فلسطینی قوم کے حقوق کی نفی کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔
اسرائیل کے ساتھ مسلسل کشیدگی
سال 2018ء فلسطینیوں کے لیے خونی سال ثابت ہوا۔ اس دوران اسرائیلی فوج نے 343 فلسطینیوں کو شہید اور 6 ہزار کو حراست میں لیا۔
قابض اسرائیلی انتظامیہ نے فلسطینیوں کے450 مکانات مسمار اور ہزاروں دونم زرعری اراضی کو یہودی کالونیوں کی توسیع کی بھینٹ چڑھا دیا۔ غرب اردن میں یہودی کالونیوں میں توسیع میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا۔
سال 2019ء کے آغاز میں اسرائیلیوں کو انتخابات کا بخار چڑھ گیاہے۔ صہیونی ریاست میں نو اپریل کو انتخابات ہو رہےہیں۔ دائیں بازو اور انتہائی پسند دائیں بازو کےدرمیان کانٹے دار مقابلےکی توقع ہے۔ فلسطینی جانتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے انتخابی پروپینگڈے کا محض ایندھن ہیں۔ نئی بننے والی اسرائیلی پارلیمنٹ بھی فلسطین میں یہودی آباد کاری کو جنگی بنیادوں پرجاری رکھنے پر اصرار کرے گی۔ اس کا اندازہ موجودہ انتخابی مہم سے بھی لگایا جاسکتا ہے کیونکہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں یہودیوں کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے انہیں غرب اردن میں آباد کاری کی مزید سہولیات دینے کے وعدے کررہےہیں۔