جنگ کا پہلا مرحلہ پورا ہو گیا تاہم دوسرا، تیسرا اور چوتھا مرحلہ باقی ہے۔ اسلامی مزاحمتی محاذ موجود ہے اور طاقتور ہے، اس نے نہ تو اپنا ایجنڈا بدلا اور نہ ہی اہداف میں کوئی تبدیلی کی ہے۔
جب سید حسن نصر اللہ نے اپنے خطاب میں کہہ دیا کہ لبنان کی سرحد سے دو کیلومیٹر کے فاصلے پر اسرائیلی فوجی مرکز کے اندر بکتربند گاڑی پر حملہ، اس طاقت کے توازن کو مضبوطی سے قائم کرنے کی کاروائی ہے کہ وہ زمانہ گزر چکا ہے جب اسرائیلی ڈرون طیارے لبنان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرکے آرام سے لوٹ جایا کرتے تھے، اب ان ڈرون طیاروں کو سرنگوں کر دیا جائے گا۔
اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ تصادم فی الحال رکا ہے، جنگ آگے بھی چلتی رہے گی یہاں تک کہ وہ فیصلہ کن جنگ ہوگی جو سارے حالات ہی نہیں بلکہ نقشہ بھی بدل دے گی۔ یہاں ہم اسرائیل کے نقشے کی بات کر رہے ہیں ۔
اہم بات یہ ہے کہ حزب اللہ نے اسرائیلی حملے کا جواب دیا اور بہت ہی دقیق اور منظم طریقے سے انجام دیا تاکہ اس مرحلے میں لبنان کو ایک بڑی جنگ میں داخل نہ ہونا پڑے ۔ یہ بہت ذمہ دارانہ موقف ہے جو اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ لبنان میں موجود سبھی فریق کی مرضی کو مد نظر رکھا گیا ہے اور اسلامی مزاحمت نے اپنے دیگر اتحادیوں سے بھی ہم آہنگی کرکے قدم بڑھایا۔
حزب اللہ نے 2015 اور 2016 میں بھی اسی طرح کے اسرائیلی حملوں پر جوابی کاروائی کی تھی اور مقبوضہ شبعا فارم کے علاقے میں اسرائیل کی بکتربند گاڑیوں کو نیست و نابود کیا تھا ۔ اس بار حزب اللہ نے مزید دقت کے ساتھ انتقام لیا ہے۔ اس نے جو وعدہ کیا اسے پورا کر دیا۔
اسرائیلیوں کو اب اچھی طرح پتا چل چکا ہوگا کہ حزب اللہ کے خلاف کوئی بھی کاروائی کی تو اس کی قیمت ضرور چکانی پڑے گی اور اس میں زیادہ وقت بھی نہیں لگے گا کیونکہ اب ساری ریڈ لائینیں ختم ہو چکی ہیں، یہ بات سید حسن نصر اللہ نے اپنے خطاب میں واضح الفاظ میں کہی ۔
جب تک اسلامی مزاحمتی تحریک سے متعلق طاقتیں موجود ہیں اس وقت تک تصادم کا نتیجہ کبھی بھی اسرائیل کے حق میں نہیں ہوگا، ہماری اس بات کی دلیل وہ شدید خوف ہے جو نتن یاہو اور اسرائیلیوں پر سایہ فگن ہے۔
آج جب عرب حکومتیں جاکر اسرائیل کے قدموں پر گر رہی ہیں، تو اس زمانے میں حزب اللہ کا نام روشن ہے اور یہ جملہ بارہا سچ ثابت ہو رہا ہے کہ سید حسن نصراللہ جو کہتے ہیں وہ کرتے ہيں ۔