چینی صدر شی جن پنگ نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کو کہا ہے کہ قیام امن کے خواہشمند تمام فریقین سے مذاکرات کرنے کے کے لیے چین اپنے خاص نمائندوں کو یوکرین بھیجے گا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ نے روس یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد پہلی بار یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنکسی سے ٹیلیفون پر بات چیت کی جس کے ساتھ یوکرین کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوا ہے جو کئی ماہ سے چین سے جنگ میں ثالثی اور مذاکرات کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔
یوکرینی کے صدر نے مذکرات کی اہمیت اور روس کے قریبی ساتھی چین کے ساتھ تعلقات میں اضافے کے لیے فوری طور پر کابینہ کے سابق رکن کا نام چین میں یوکرین کے سفیر کے طور پر تجویز کردیا۔
چینی صدر کے ساتھ ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کو ’طویل اور معنیٰ خیز‘ قرار دیتے ہوئے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کردہ بیان میں کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ فون کال پر ہونے والی گفتگو کے ساتھ ساتھ چین میں یوکرین کے نئے سفیر کی تعیناتی ہمارے دوطرفہ تعلقات کی بہتری کے لیے ترقی کو توانائی فراہم کرے گی‘۔
چین کی سرکاری میڈیا کے مطابق شی جن پنگ نے ولادیمیر زیلنسکی کو کہا کہ چین، یوکرین میں اپنے خاص نمائندوں کو بھیجے گا تاکہ امن کے خواہشمند تمام فریقین سے مذاکرات کیے جا سکیں۔
رواں برس فروری سے چین نے یوکرین کے لیے 12 نکاتی امن منصوبے کو فروغ دیا ہے جس کا مغربی ممالک نے خیرمقدم کیا ہے لیکن کیف نے جنگ کے خاتمے کے لیے چینی مفادات کے طور پر اس کو زیادہ اہمیت دی ہے۔
چین کی سرکاری میڈیا کے مطابق چینی صدر نے یوکرینی صدر کو کہا کہ چین امن مذاکرات کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز رکھے گا اور جنگ بندی کے لیے جلد از جلد کوششیں کی جائیں گی۔
شی جن پنگ نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن اور ایک ذمہ دار ملک کے طور پر ہم نہ تو خاموش بیٹھے رہیں گے اور نہ ہی آگ پر تیل ڈالیں گے لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔
واضح رہے کہ یوکرینی حکام کافی وقت سے چین سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ جنگ ختم کرنے کے لیے روس پر اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کرے۔
یاد رہے کہ جنگ شروع ہونے سے قبل شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ’نو لمٹس‘ شراکتی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
اس کے بعد چین نے ماسکو پر مغربی پابندیوں کی مذمت تو کی ہے لیکن یوکرین پر حملے کی کھل کر حمایت سے پیچھے ہٹ گیا۔
شی جن پنگ اور ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان بات چیت کے بعد روسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’ہم چینی فریق کی جانب سے مذاکراتی عمل کے قیام کے لیے کوششوں کو دیکھ رہے ہیں۔
ادھر امریکا نے حالیہ مہینوں میں کہا تھا کہ ہم چین کی طرف سے روس کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کرنے پر تشویش کا شکار ہیں، تاہم چین نے ایسے کسی منصوبے کی تردید کی ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ تنازع پر ثالثی میں مدد کے لیے وہ تیار ہے کیونکہ اس نے کسی فریق کی طرفداری نہیں کی۔
چینی وزارت خارجہ کے یوریشین ڈپارٹمنٹ کے نائب سربراہ نے کہا چین نے یوکرین کے بحران کو حل کرنے میں مدد کے لیے جو کچھ کیا ہے وہ سب سے زیادہ ہے۔
چین نے کہا کہ سابق سوویت ریاستوں کی آزادی پر اس کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔