یہ کیس اپریل 2016ء کو پراسیکیوٹر جنرل کو بھیجا گیا۔ اس کی تحقیقات ابھی تک جاری ہیں۔ دوسری جانب نیتن یاھو کا کہنا ہے کہ ان کے اور خاندان پرعاید کردہ الزامات بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں کئی بار حکومتی اجلاس اپنی رہائش گاہ پر کرتا رہا ہوں۔ میں نے اپنی رہائش گاہ کو سرکاری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ قیساریہ اور القدس میں میری رہائش گاہوں پر متعدد بار اجلاس ہوچکے ہیں۔
بجلی کیس 2015ء
بجلی کیس میں نیتن یاھو اور ان کی اہلیہ دونوں کو سرکاری خزانے سے ذاتی مقاصد کے لیے بجلی کے اخراجات ادا کیے اور انہیں سرکاری طور پر حاصل مراعات
سے تجاوز کرتے ہوئے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا۔
اسٹیٹ کنٹرولر یوسف شابیرا نے تین ماہ تک اس کیس کی تحقیقات کیں۔ یہ تحقیقات ابھی تک پولیس کے ہاں زیرتفتیش ہے۔ اس میں وزیراعظم اور ان کی اہلیہ پر
ساریہ میں واقع اپنی خصوصی رہائش گاہ پر قومی خزانے سے پیسہ خرچ کرنے کا الزام عاید کیا گیا ہے۔