اسامہ طلحہ میموریل سوسایٹی اور کشوری کنیکشن کی جانب سے آج ایک دلچسپ پروگرام ٹلفظ اور ہم منعقد ہوا۔اس پروگرام میں نیوز چینلوں اور اخبارات کے صحافیوں کو یہ بتایا گیا کہ کس طرح سے اردو کے الفاط و دملوں کو صحیح طریقے سے رپورٹنگ میں استعمال کیا جائے۔ پروگرام کی صدارت ڈاکٹر انیس اشفاق نے کی اور اردو نیا کی متعدد مقبول ہستیوں نے شرکائ کو اردو کے استعمال کی باریکیوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔
اسامہ میموریل سوسایٹی اور کشوری کنکیشنن نے یہ پروگرام مرحوم صحافی اسامہ طلحہ کی یاد میں منعقد کیا تھا۔ متعدد صحافیوں نے اس پروگرام سے استفادہ کیا ۔انہوں نے ماہرین اردو سے دیگر الفاظ جو خبروں میں استعمال ہوتے ہیں انکے تلفظ کی باریکیوں کو سمجھا۔
پروفیسر صابرہ حبیب،عائشہ صدیقی، صبیحہ انور نے مشاعروں،خبروں اور نیوز چینلوں پر اردو کے استعمال کو خوشگوار بتایا مگر مقریرین نے اس ورک شاپ میں یہ بھی بتایا کہ کس طرح سے الفاظ کا تلفظ بغر رہا ہے اور اسکی ادائگی کس طرح ہونا چاہیئے۔
پروفیسر انیس اشفاق نے کہا کہ لکھنؤ والوں کے سامنے ادب کی بات کرنا، گفتگو کی بات کرنا، زبان کی بات کرنا بیان کی بات کرنا، سخن کی بات کرنا … یہ ویسا ہی ہے جیسا کہ آپ کستوری ہرن کے سامنے خوشبو کی بات کریں.
انہوں نے کہا کہ ہر زبان کی اپنی خصوصیات ہیں. ہندی میں ایسے الفاظ بھی ہیں جو دنیا میں کسی بھی زبان کے پاس نہیں ہیں. ہندی کے لفظ گمبھیر کا کوئی متبادل نہیں ہے. جو بات وموچن میں ہے وہ اجرا میں نہیں ہے۔. اخبار اور نیوز چینلوں کی زبان لوگوں کو متاثر کرتی ہے، لہذا ہماری بنیادی ذمہ داری اردو میں لکھنا ۔جس زبان کا استعمال اپنی رپورٹ میں کر رہے ہوں اسکو درست طریقے سے لکھا اور بولا جائے یہی اسکا حسن ہے۔.
اردو کی مقبولیت اور شہرت کا یہ عالم ہے کہ سیاستداں اپنی تقریروں کے دوران پارلیمان اور اسمبلیوں میں بھی اردو کے اشعار استعمال کرتے ہیں۔ دلچپ بات یہ ہے کہ بعض سیاستداں اردو کی مخلافت بھی اردو میں ہی کرتے ہیں۔
پروفیسر صابرہ حبیب نے کہا کہ مجھے لوگوں سے ملنے کے لمحات یاد ہیں. روسی میں یہ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ سو سال تک زندہ رہیں تو سیکھنے کا عمل جاری رکھیں. ہندی اور اردو دو بہنیں ہیں
مصنفہ صبیحہ انور نے بتایا کہ تحریر، تقریر اور قلم کے ذریعہ صحافی اپنی بات عوام تک پہنچاتا ہے. لہذا، اس کو الفاظ کے معنی اور تلفظ کی صحیح معلومات ہونا چاہئے. میڈیا کو اسے جاننے کی کوشش کرنا چاہئے. اردو ہندوستان میں سمجھنے میں مدد دیتی ہے.ہندوستان کی پہچان غالب سے بھی ہے اسلئے اردو زبان کی ایک خاص اہمیت ہے۔. آپ بہت اہم الففاظ استعمال کرتے ہیں ہمیں صرف سرسری غلطیوں کو دور نہیں کرنا چاہئے بلکہ گہرے طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے. ہم بغیر معاملے کو سمجھے ہوئے اس گہرائی میں جائیں تو پتہ چلے گا کہ وہ لفظ کیوں لکھا گیا ہے. ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہم غلطیاں نہ کریں.
مصنفہ عائشہ صدیقی نے بتایا کہ صحافی مشاعرہ احاطہ کرنے ہی نہیں محسوس کرنے کے لئے جاتا ہے. سامان کی فروخت کرنے کے لئے یہ ان کی طاقت ہے. لکھنؤ میں ہر ایک اردو کا ایک شخص ہے. سیاستداں اپنی تقریر میں اردو کے اشعار اسلئے استعمال کرتا ہے کہ اسکے بیان میں وزن پیدا ہو۔لوگ متاثر ہوسکیں،مگر جب وہ غلط تلفظ سے اشعار پڑھتا ہے تو اسکی تقریر کا وزن گھٹ جاتا ہے۔۔تلفظ کے ساتھ ساتھ اشعار بھی غلط پڑھتا ہے تو اسکا مزاق بن جاتا ہے۔
ورک شاپ کی روح رواں صحافی کلثوم طلحہ نے ورک شاپ کے اغراض و مقاصد واضح کئے اور اس نوعیت کے تربیتی ورک شاپ پر زور دیا۔انہوں نے بتایا کہ وہ اس سلسلے کو جاری و ساری رکھیں گی کیونکہ لوگوں بالخصوص صحافیوں نے ورک شاپ میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔