میونخ سیکیورٹی کانفرنس اسٹریٹجک اعتبار سے دنیا کے معتبر ترین اجتماعات میں سے ایک ہے جو اس ماہ 17 سے 19 فروری تک منعقد ہوئی۔ میونخ سیکیورٹی کانفرنس پالیسی سازوں اور ماہرین کے لیے دنیا کو لاحق خطرات پر کھلی اور مفید بحث کا بہترین پلیٹ فارم ہے۔ اس کانفرنس میں ہونے والے مباحث اور پس پردہ سفارت کاری بین الاقوامی سلامتی کے نئے پیمانوں کی جانچ پرکھ کے لیے اہم ہے۔
غیر یقینی کے ان حالات میں اس کانفرنس کو غیر معمولی اہمیت دی گئی، حتیٰ کہ کانفرنس سے قبل پیش کی گئی میونخ سیکیورٹی رپورٹ 2017 کے عنوان “پوسٹ ٹرتھ، پوسٹ ویسٹ، پوسٹ آرڈر” (سچ سے آگے، مغرب سے آگے، انتظام سے آگے) سے بھی اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، جو عالمی برادری کو درپیش چیلنجز کی پیچیدگی کا بھی عکاس ہے۔
میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے سربراہ وولف گینگ اِیشِنگر نے ابتدائیے میں کہا کہ اعتدال پسندانہ عالمی نظام کا بنیادی ڈھانچہ کمزور ہو رہا ہے۔ جمہوریتیں غلط اطلاعات اور لاعلمی کے سامنے کمزور نظر آ رہی ہیں۔ مغربی ملکوں میں ایک طبقہ سمجھتا ہے کہ جمہوریت ان کے مفادات کا تحفظ نہیں کر پا رہی اور وہ قوم پرستی کی طرف مائل ہیں، وہ عالمگیریت پر تنہائی کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے ہی دائرے میں بند ہو جانا چاہتے ہیں، اس کی تازہ ترین مثال ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں ہیں جو امریکا کو سب سے مقدم قرار دیتے ہوئے عالمگیر برادری سے الگ ہو رہے ہیں۔
جبکہ ایسے ہی خیالات یورپ میں بھی نمو پانے لگے ہیں جن کا عکاس بریگزٹ بھی ہے، عالمی نظام کی تشکیل میں یورپ کی صلاحیت اور آمادگی کم ہوتی نظر آتی ہے۔ وولف گینگ اِیشِنگر نے سوال اٹھایا کہ کیا یورپ کے دور کا خاتمہ ہونے کو ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کے یورپ کی سیکیورٹی پر اثرات کیا ہوں گے؟ وولف گینگ اِیشِنگر اس سوال کا جواب کانفرنس کے شرکاء پر چھوڑ گئے۔
وولف گینگ اِیشِنگر نے یورپ کو اس کے اندر سے ابھرنے والے خطرے کی بھی نشان دہی کی، اور رواں سال ہالینڈ، جرمنی اور فرانس کے انتخابات کے نتائج کو بھی یورپ کے مستقبل کے لیے اہم قرار دیا، جن میں قوم پرست جماعتوں کی کامیابی کے امکانات ہیں۔ وولف گینگ اِیشِنگر نے کہا کہ اگر ہم معاملات کو اپنے انداز میں چلانے میں کامیاب رہے (یعنی قوم پرستوں کا راستہ روک پائے) تو یورپ نہ صرف بحران سے نکل جائے گا بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر ابھرے گا۔
میونخ سیکیورٹی کانفرنس ایسے ماحول میں ہوئی جب دنیا کے سامنے شام، یمن، یوکرین، تارکین وطن جیسے بڑے چیلنجز درپیش ہیں لیکن اس کانفرنس میں بحث کا مرکز یورپ کا مستقبل ہی رہا۔ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد سے ہی دنیا بھر میں ان کی خارجہ پالیسی کو سمجھنے کی کوشش کی جا رہی تھی، کیونکہ صدر ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران اور عہدہ سنبھالنے سے پہلے بھی نیٹو اور یورپی یونین کے حوالے مختلف اور متضاد رائے کا اظہار کر چکے تھے۔ تاہم امریکا کی طرف سے اس کانفرنس میں بھاری بھرکم وفد بھجوایا گیا جس میں نائب صدر مائیک پینس کے علاوہ وزیر دفاع جیمز میٹس اور دیگر اعلیٰ انتظامی اور سفارتی عہدیدار بھی شامل تھے۔
امریکی نمائندگان نے ٹرمپ کے بیانات کے برخلاف بحرالکاہل کے اس کنارے کے اتحادیوں کو بھرپور یقین دہانی کروائی کہ امریکا ان کے ساتھ تھا ہے اور رہے گا اور ساتھ ہی یورپی اتحادیوں کو دفاعی اخراجات میں مقدور بھر حصہ ڈالنے کے لیے بھی کہا.
امریکی نائب صدر اور وزیر دفاع کی یقین دہانیاں اپنی جگہ لیکن کیا کہئے کہ جب آئینے میں بال آ جائے تو طلاق ہو کر ہی رہتی ہے۔ امریکا کے بھاری بھرکم وفد کی میونخ کانفرنس میں شرکت کو کچھ ماہرین نے یورپ اور امریکا کے تجدید نکاح کے طور پر بھی دیکھا کیونکہ خدشات کے برعکس کانفرنس کا اختتام خوشگوار انداز میں ہوا۔ امریکا کے نائب صدر مائیک پینس نے مشترکہ دفاع کے حوالے سے نیٹو کے آرٹیکل 5 کو ٹھوس قرار دیتے ہوئے نیٹو کے ساتھ امریکی وابستگی برقرار رکھنے کا یقین دلایا۔
امریکی نائب صدر نے نیٹو کے ساتھ وابستگی برقرار رکھنے کی یقین دہانی کے ساتھ ڈھکے چھپے لفظوں میں ایک وارننگ بھی دی. مائیک پینس نے نیٹو کے اخراجات کے حوالے سے کہا کہ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکا کے اتحادی بھی اپنے وعدے پورے کریں اور اب اس حوالے سے اب مزید کچھ کرنے (ڈو مور) کا وقت آگیا ہے۔
امریکی نائب صدر کے اس بیان پر شرکاء نے ہچکچاہٹ کے ساتھ تالیاں بجائیں جو اس بات کا اشارہ ہے کہ اکثر یورپی ملک یہ بات پسند نہیں کرتے کہ ٹرمپ انہیں کسی بات پر مجبور کریں۔
اس سے پہلے جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے اس بات پر زور دیا کہ سیکیورٹی کے حوالے سے یورپ کے عزم کا پیمانہ صرف نیٹو کے اخراجات نہیں۔ انجیلا مرکل نے بہت پرسکون انداز میں ٹرمپ ٹیم کی پالیسیوں کی ہیئت کی جانب اشارہ کیا اور عالمی فورمز بشمول اقوام متحدہ اور نیٹو کی اہمیت جتائی جسے ٹرمپ حقارت سے کم کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔
انجیلا مرکل نے ٹرمپ کی انتخابی مہم کے مرکزی نکتے “امریکا سب سے پہلے” پر بھی سوال اٹھایا اور کہہ دیا کہ آیا ٹرانس اٹلانٹک اتحاد برقرار رہ بھی پائے گا یا آر پار کے لوگ مقامی حدود کے قیدی بن جائیں گے؟ واضح رہے کہ ٹرانس اٹلانٹک ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں امریکا، مغربی اور مشرقی یورپ اور ایشیا سے تعلق رکھنے والے ماہرین ٹیکنالوجی و سرمایہ کاریوں کے گرما گرم موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ ٹرانس اٹلانٹک کی پہلی کانفرنس برلن میں سال 2015 میں منعقد ہوئی۔
یورپ جس بات سے خوفزدہ ہے وہ ٹرمپ کے روس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے خیالات ہیں لیکن امریکی وزیر دفاع جنرل میٹس نے واشگاف انداز میں کہہ دیا ہے کہ روس کو عالمی قوانین کی پابندی کرنی ہوگی جس سے یورپ کو کچھ تشفی ہوئی ہوگی۔ اسی طرح وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے بون کے حالیہ دورے میں زور دیا کہ منسک معاہدے جیسے معاہدوں پر روس سمیت تمام فریقین کو عمل کرنا ہوگا۔
جانیے: ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح بڑا عالمی خطرہ: رپورٹ
میونخ کانفرنس میں روسی حکام کی کیفیت کسی دوراہے پر بیٹھے شخص کی سی رہی جو کسی قافلے میں چلنے والے افراد کی باہمی گفتگو سن کر ان کی منزل اور مقاصد سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے اپنا مؤقف دہرایا کہ نیٹو اب ماضی کا قصہ بن چکا ہے، اٹلانٹک اتحاد میں توسیع سے ماضی میں بھی کشیدگی بڑھی اور اب بھی خوشگوار اثرات مرتب نہیں ہوں گے لہٰذا اب بھی نیٹو کو “پوسٹ ویسٹرن آرڈر” ہی سمجھا جانا چاہیے۔
اس صورتحال میں یہ بات واضح ہے کہ ٹرمپ کے لیے ماسکو کے ساتھ نئی شروعات کے امکانات کم ہیں یا کم از کم یورپ کی قیمت پر تعلقات استوار کرنے کی امید بر نہیں آئے گی۔ میونخ کانفرنس کا اختتام بظاہر تو خوشگوار ہی ہے لیکن یورپی اقوام کے تحفظات اب بھی اپنی جگہ برقرار ہیں، امریکی نائب صدر اور وزیر دفاع کی یقین دہانیوں کے باوجود ٹرمپ کی پالیسیوں پر یورپ فکر مند ہی رہے گا۔