امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کیے گئے ایک اہم ترین وعدے سے پیچھے ہٹتے ہوئے ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدہ باقی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تاہم ساتھ ہی انہوں نے دھمکی بھی دی ہے کہ ایران پر پابندیاں عائد کرنے کا تعلق اس کے نیوکلیئر پروگرام سے نہیں بلکہ دیگر دو عسکری پروگراموں سے ہے۔ ان میں ایک بیلسٹک میزائل اور دوسرا تیز رفتار سمندری کشتیوں سے متعلق ہے۔
اس بات کا اعلان پیر کی شب ایک امریکی عہدیدار نے کیا۔ واضح رہے کہ ٹرمپ نے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ اس نیوکلیئر معاہدے کو ختم کر دیں گے جو دو سال قبل بڑے ممالک اور تہران کے درمیان طے پایا تھا۔
عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کے مطالبے پر بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے نزدیک تہران 14 جولائی 2015 کو سابق صدر باراک اوباما کی انتظامیہ کے ساتھ طے پائے جانے والے نیوکلیئر معاہدے کے متن کی “شرائط کی پاسداری” کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایران پر اس کے نیوکلیئر پروگرام کے سبب کوئی پابندی عائد نہیں کی جائے گی۔
اس سے قبل وہائٹ ہاؤس کے ترجمان شون اسپائسر یہ اعلان کر چکے ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن بہت جلد ایران کے عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پائے گئے نیوکلیئر معاہدے کے بارے میں ایک بیان جاری کریں گے ، اس معاہدے کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے “ایک بُرا معاہدہ” قرار دیا تھا۔
ایک برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سینئر ذمے دار نے بتایا ہے کہ مذکورہ فیصلہ ایران کی جانب سے 2015 کے نیوکلیئر معاہدے کی پاسداری کی بنیاد پر کیا گیا ہے تاہم ٹرمپ اور وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن یہ سمجھتے ہیں کہ ایران ” اب بھی امریکی مفادات اور خطے میں امن و استحکام کے لیے ایک نمایاں ترین خطرہ ہے”۔
عہدیدار نے خطے میں ایران کے برتاؤ سے متعلق الزامات کی فہرست پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان میں بیلسٹک میزائل پروگرام کو ترقی دینا ، دہشت گردوں اور شدت پسندوں کو سپورٹ کرنا ، شام میں وحشیانہ کارروائیوں کے ارتکاب میں ملوث ہونا اور خلیج میں سمندری گزر گاہوں کے لیے خطرہ بننا شامل ہے۔
امریکی عہدیدار نے واضح کیا کہ “امریکی صدر اور وزیر خارجہ کا خیال ہے کہ ایران کی یہ سرگرمیاں نیوکلیئر معاہدے کے مقصد.. یعنی علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر امن اور سلامتی کے عمل میں حصہ لینے کو شدت سے سبوتاژ کر رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ٹرمپ ، ٹیلرسن اور پوری امریکی انتظامیہ کے نزدیک ایران بلا شک و شبہہ نیوکلیئر معاہدے کی روح کو پامال کر رہا ہے”