صہیونی صحافی نے وائٹ ہاؤس میں نتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ کے رویے کو زیلنسکی سے زیادہ توہین آمیز قرار دیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، صہیونی وزیر اعظم نتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کی۔
بہت سے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں نتن یاہو کے ساتھ ٹرمپ کا رویہ زیلنسکی کے ساتھ ٹرمپ کے سلوک سے بھی زیادہ توہین آمیز تھا۔
اسرائیلی نامہ نگار انشل ففر نے ٹرمپ اور نتن یاہو کی وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ ٹرمپ نے نتن یاہو کے ساتھ ویسا برتاؤ نہیں کیا جیسا اس نے زلنسکی کے ساتھ کیا تھا، لیکن کئی حوالوں سے یہ ملاقات زیادہ تحقیر آمیز تھی۔
ففر نے کہا کہ ٹرمپ اسرائیل سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ امریکہ کے ایک تابع ملک کی طرح برتاؤ کرے، بلکہ اس کا رویہ ایسا ہے گویا اسرائیل پہلے ہی امریکہ کی ایک ریاست بن چکا ہے، اور نیتن یاہو صرف سر ہلا کر اس کی باتوں سے اتفاق کرتا ہے۔ یہ نیتن یاہو کی انتہا درجے کی توہین ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر نے اسرائیلی وزیراعظم کو مجبور کیا کہ وہ ایران کے ساتھ ممکنہ معاہدے کی کھلے عام تائید کرے۔ ساتھ ہی اسرائیل نہ تو تجارتی ٹیرف میں کوئی رعایت حاصل کرسکا، نہ ہی غزہ میں یرغمالیوں کے بحران کا کوئی حل نکل پایا۔
اسرائیلی صحافی نے ایک اسرائیلی عہدیدار کے حوالے سے کہا کہ نتن یاہو وہ وزیراعظم ہے جس نے اسرائیل کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر امریکہ کے سپرد کردی ہے اور اب اسرائیل کی خارجہ پالیسی وہی ہے جو ٹرمپ طے کرتا ہے۔
دوسری جانب الجزیرہ کے صحافی علی ہاشم نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا ہے کہ ٹرمپ کے ایران سے مذاکرات کے آغاز سے متعلق ہفتے کے روز دیے گئے بیان
کا واضح پیغام نیتن یاہو کے لیے تھا کہ اپنی مرضی سے کوئی قدم نہ اٹھانا۔