برطانیہ میں ریلوے کے ہزاروں ملازمین نے گزشتہ 30 برسوں میں تاریخ کی سخت ہڑتال کے پہلے دن ریلی نکالی، جس کے نیتجے میں مسافروں کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ یونین اور حکومت دونوں نے تنخواہوں کی ادائیگی کے معاملے پر اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق 40 ہزار سے زائد ریلوے ملازمین میں سے کئی ملازمین ہڑتال کا اعلان کرچکے ہیں اور صبح سے ہی پیکٹ لائنوں پر جمع ہو گئے، جس کے باعث پورے نیٹ ورک میں بدترین خلل پیدا ہوگیا اور ریلوے نظام شدید متاثر ہوگیا، لندن انڈر گراؤنڈ میٹرو بھی ہڑتال کی وجہ سے بند رہی۔
برطانیہ میں دہائیوں میں بدترین معاشی بحران کا سامنا کرنے والے شہریوں کی مدد کے لیے دباؤ کا سامنا کرنے والے وزیر اعظم بورس جانسن، نے کہا ہے کہ ہڑتال سے کاروبار کو نقصان پہنچے گا حالانکہ ملک ابھی عالمی وبا کورونا کے نقصانات کے بعد بحالی کا جانب گامزن ہے۔
دوسری طرف یونینز نے کہا ہے کہ ریل ہڑتالیں اساتذہ، ڈاکٹرز، فضلہ ٹھکانے لگانے والے اہلکاروں اور یہاں تک کہ وکلا کے ساتھ بڑے پیمانے پر ہڑتال کا آغاز کر سکتی ہیں کیونکہ مہنگائی 10 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سیکریٹری جنرل آف ریل مِک لنچ، میری ٹائم اور ٹرانسپورٹ ورکرز نے اسکائی نیوز کو بتایا کہ برطانوی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی ضرورت ہے، ہسپتال کے عملے نے بتایا کہ چند ساتھی خدمات جاری رکھنے کے لیے رات بھر کام کی جگہ پر ہی سو گئے تھے۔
بوری جانسن نے اپنی کابینہ کو بتایا کہ ہڑتالیں ’غلط اور غیر ضروری‘ ہیں اور ملک کے لیے ان کا پیغام یہ ہے کہ انہیں حکومت کے ساتھ تعاون کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ ریلوے چلانے کے طریقوں میں بہتری عوام کے مفاد میں ہے۔